مبینہ آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لیے قائم انکوائری کمیشن نے مزید کارروائی روک دی، جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ کمیشن آف انکوائری ایکٹ کے تحت یہ کمیشن بنایا گیا، کم از کم ہمیں نوٹس ہی جاری کردیتے، دوسروں کی عزت ہے تو تھوڑی ہماری بھی ہونی چاہئیے، ہم صرف اللہ کے غلام ہیں اور کسی کے نہیں، حلف کی پابندی نہ ہوتی تو معذرت کرکے چلا گیا ہوتا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی کمیشن نے حکومت کی جانب سے تشکیل دیے گئے آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کی کارروائی کی، اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نعیم افغان کمیشن کا حصہ تھے۔
اٹارنی جنرل آف پاکستان منصور عثمان کمیشن کے سامنے پیش ہوئے۔
سپریم کورٹ نے کمیشن سے متعلق کوئی حکم نامہ جاری کیا ہے، جسٹس فائز
جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہا کہ سپریم کورٹ نے کمیشن سے متعلق کوئی حکم نامہ جاری کیا ہے، ہمیں اس حکم نامے کی کاپی فراہم کریں۔ جس پر اٹارنی جنرل نے حکم نامے کی کاپی عدالت کو فراہم کردی۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان نے گزشتہ روز کا عدالتی حکم پڑھ کر سنایا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ انکوائری کمیشن کو سماعت سے قبل نوٹس ہی نہیں کیا گیا تو کام سے کیسے روک دیا، سپریم کورٹ رولز کے مطابق فریقین کو سن کر کوئی حکم جاری کیا جاتا ہے۔
آپ کیوں کل کمرہ عدالت میں تھے نوٹس تھا یا ویسے بیٹھے تھے، قاضی فائز عیسیٰ
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ آپ کیوں کل کمرہ عدالت میں تھے نوٹس تھا یا ویسے بیٹھے تھے، جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ مجھے زبانی بتایا گیا تھا کہ آپ عدالت میں پیش ہوں، سماعت کے بعد مجھے نوٹس جاری کیا گیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ کیا شعیب شاہین نے کل یہ کہا کسی کی بھی آڈیو آئے اس جج کا معاملہ سیدھا سپریم جوڈیشل کونسل بھیج دو، درجنوں ایسی شکایات آتی ہیں کیا ٹھیک کرکے سپریم جوڈیشل کمیشن بھیج دیا کریں؟ آڈیو کی صداقت جانے بغیر کیا کسی کی زندگی تباہ کردیں، کس نے آڈیو ریکارڈ کی وہ بعد کی بات ہے۔