سپریم کورٹ میں پنجاب میں انتخابات کرانے کے فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن کی نظرِثانی درخواست اور ریویو آرڈرز اینڈ ججمنٹس ایکٹ کیس کی سماعت کے دوران جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ریویو ایکٹ لاگو ہوا تو ازخود نوٹس والے سب کیسز دوبارہ کھل جائیں گے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے دائر نظرِثانی درخواست پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی بینچ نے سماعت کی۔
سماعت کے آغاز پر پاکستان تحریک انصف (پی ٹی آئی) کی جانب سے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے 1962 کے عدالتی ایکٹ کا حوالہ دیا، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بہت اچھا فیصلہ ہے، یہ ریویو سے متعلق تھا۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ فیصلہ میں کہا گیا کہ عدالت کو اپنا پرانا فیصلہ ری اوپن کرنے میں بہت ہچکچاہٹ اور احتیاط برتنی چاہیے، فیصلے میں سپریم کورٹ کے فیصلوں کے حتمی ہونے کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کی جانب سے اب تک کے 3 پوائنٹ اٹھائے گئے ہیں، فیصلے میں دانش مندی ہے، وہ قانونی عمل کو حتمی بنانے کی بات کر رہے ہیں، بھارت میں حق سماعت نہ ملے تو نظر ثانی ہوتی ہے، ہمارے ہاں فیصلہ غیر قانونی ہو تو نظر ثانی ہوجاتی ہے، غلط قانون کو حتمی نہیں ہونے دیتے۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ کریمنل ریویو میں صرف نقص دور کیا جاتا ہے، سول میں اسکوپ بڑا ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ہم یہ دیکھ رہے ہیں کیا پارلیمنٹ ریویو اسکوپ بڑھا سکتی ہے؟ نظر ثانی کے آئینی تقاضے ہیں مگر اسے اپیل میں بدلا نہیں جا سکتا، آپ کے مطابق وہ دراصل 184 تین کے اثر کو کم تر کر رہے ہیں، آپ کہہ رہے ہیں 184 تین کا دائرہ کم کریں موسٹ ویلکم لیکن آئینی ترمیم سے کریں؟