جعلی اکاؤنٹس اسکینڈل میں سابق صدر آصف زرداری کو آج ایف آئی اے کے دفتر میں طلب کیا گیا ہے، تاہم بلاول بھٹو جے آئی ٹی کے سامنے پیش نہیں ہوں گے۔
تفصیلات کے مطابق منی لانڈرنگ اور جعلی اکاؤنٹس کیس میں جے آئی ٹی نے 22 نومبر کو سابق صدر آصف زرداری، بلاول بھٹو، فریال تالپور اور ملک ریاض کو شامل تفتیش کرتے ہوئے انہیں نوٹس جاری کئے تھے اور 28 نومبر کو جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔
نوٹس کی تعمیل کرتے ہوئے سابق صدر آج ایف آئی اے کے دفتر میں پیش ہونگے مگرپاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو جے آئی ٹی کے سامنے پیش نہیں ہوں گے۔ذرائع کے مطابق بلاول بھٹو کے وکیل پوچھے گئے سوالوں کا تحریری جواب داخل کرائیں گے، مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی جانب سے بلاول بھٹو کو سوالنامہ جاری کیا گیا ہے۔
دوسری طرف وزیرِ بلدیات سندھ سعید غنی کہتے ہیں کہ بلاول بھٹو کو کل تک جے آئی ٹی کی جانب سے کوئی نوٹس نہیں ملا، انھیں طلبی کا نوٹس ملےگا تو سامنا کریں گے، بھاگیں گے نہیں۔
انھوں نے کہا کہ ایف آئی اے یہ پتا نہیں لگا سکی کہ فالودے والے کے اکاؤنٹ میں کس کے پیسے تھے، پیسوں کی تفصیلات نہ بتانا ایف آئی اے کی نا اہلی ہے۔سعید غنی کا کہنا تھا کہ زرداری گروپ آف کمپنیز رجسٹرڈ ہے، کئی دہائیوں سے کام کر رہی ہے، پیپلز پارٹی کو 20 سال سے سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، کسی نے جرم کیا ہے تو قانون کے تحت سزا دیں، ہم نے منع نہیں کیا۔
سماعت کے آغاز پر جے آئی ٹی کے سربراہ احسان صادق نے جعلی بینک اکاؤئنٹس کی تحقیقات سے متعلق اپنی ابتدائی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کی، جے آئی ٹی سربراہ احسان صادق نے مزید پیش رفت رپورٹ پیش کرنے کےلئے ایک ماہ کا وقت دیا، جسے عدالت نے مسترد کرتے ہوئے دو ہفتے کا وقت دے دیا۔
سماعت کے دوران مرکزی ملزم انور مجید کے بیٹے نمرمجید نے بینک سیکیورٹی سے متعلق پوچھے گئے سوال پر لاعلمی کااظہارکیا،جس پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیوں نہ آپ کو جیل بھجوا دیا جائے، ہم نے آپکو اس لیے گرفتار نہیں ہونے دیا کہ آپ بینکوں سے اومنی گروپ کےمعاملات نمٹا سکیں۔
چیف جسٹس کے ریمارکس پر نمر مجید کی طبیعت خراب ہوگئی انہیں پانی پلایا گیا۔
کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ دوسرے گرفتار ملزم عبدالغنی مجید فون پر بیٹھ کر سارے معاملات جیل سے چلارہے ہیں،کئی دفعہ کہا کہ اس سے فون لے لیا جائے۔ بعد ازاں چیف جسٹس نے عبدالغنی مجید کو اڈیالہ جیل منتقل کرنے کے احکامات جاری کر دیئے۔
اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ مجید خاندان کو بینکوں سے لین دین طے کرنے کے لیے بہت وقت دیا،اب بینکوں کے مالکان اورعبد الغنی مجید کو بلا کر دیکھ لیتے ہیں،جس کو ضمانت پر نہیں رہنا اس کو جیل بھیج دیں گے۔
اس دوران نمرمجید کی والدہ کی جانب سے نقصان پورا ہونے کی یقین دہانی پر چیف جسٹس نے کہا ہمیں 54 ارب کا بھی پتا ہے کہ وہ کہاں گئے، ہنڈی کےجو کاغذ گڑھے میں چھپائے گئے اس کا بھی پتا ہے، ایسا مت سمجھیں، ہمیں بہت کچھ معلوم ہے۔
بعد ازاں عدالت نےآئندہ سماعت پرمتعلقہ بینکوں کےاعلی حکام اور عبدالغنی مجید کو سپریم کورٹ طلب کرلیا، سپریم کورٹ نے دو گواہوں کےمبینہ اغوا سے متعلق درخواست پر آئی جی سندھ کو نوٹس جاری کرتےہوئے کیس کی سماعت سترہ نومبر تک ملتوی کردی،آئندہ سماعت لاہور رجسٹری میں ہو گی۔
اس سے قبل 30 اکتوبر کو ہونے والی سماعت کے موقع پرچیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جے آئی ٹی کو معلومات ملنا شروع ہوگئی،اب رپورٹ کا انتظار ہے۔ ڈی جی ایف آئی اے نے عدالت کو بتایا کہ اومنی گروپ کے 11 ارب 19 کروڑ کے اثاثے بینکوں کے پاس ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا یہ معلومات منطقی انجام تک پہنچانی ہیں۔ اس وقت بینک کا نقصان ہورہا ہے۔