پنجاب میں منصوبہ بندی کے بغیر بجلی پر سبسڈیز پاکستان کے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے ساتھ 7 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکیج میں دوسری بڑی رکاوٹ ہے۔
رپورٹ کے مطابق سسٹین ایبل ڈیولپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر عابد سلہری نے سیمینار کے موقع پر کہا کہ حکومت کو وفاقی اور صوبائی سطح پر اعلان کردہ بجلی کی سبسڈی پر آئی ایم ایف کو اعتماد میں لینا چاہیے۔
ڈاکٹر عابد سلہری نے نشاندہی کی کہ وفاقی اور حکومت پنجاب کی جانب سے بجلی پر سبسڈی دینا حقیقی ارادہ ہوسکتا ہے، جس سے آئی ایم ایف حیران اور ایگزیکٹیو بورڈ کی جانب سے قرض کی منظوری متاثر ہو سکتی ہے۔
آئی ایم ایف نے پہلے ہی پاکستان سے کہا ہے کہ وہ دوست ممالک سے 12 ارب ڈالر قرض کی توسیع لے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ بین الاقوامی مالیاتی قرضے دینے والے اداروں کو ایسی چیزیں پسند نہیں ہیں کیونکہ یہ معاہدوں میں موجود شرائط اور طریقہ کار کو مکمل ختم کر سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کو حیران نہیں ہونا چاہیے بلکہ اسے اعتماد میں لینا چاہیے کیونکہ فنڈ نے صارفین سے بجلی کی پوری قیمت وصول کرنے کا کہا ہے اور جولائی میں اسٹاف لیول معاہدہ ہونے کے بعد اس میں کوئی تبدیلی ممکن نہیں ہے۔
تاہم، واشنگٹن میں سفارتی ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ پاکستان 18 ستمبر تک آئی ایم ایف کے کیلنڈر پر نہیں ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ ملک فنڈ کے ایجنڈے سے باہر ہے۔
آئی ایم ایف کیلنڈر میں ایگزیکٹیو بورڈ کے آئندہ اجلاسوں کی فہرست دی گئی ہے تاکہ نئے امدادی پیکجز کے لیے رکن ممالک کی درخواستوں جیسے مسائل کو حل کیا جا سکے، چونکہ بورڈ کے تمام اراکین ان مباحثوں میں شرکت کرتے ہیں، اس لیے اجلاس کے منتظمین کو کسی بھی طے شدہ میٹنگ سے کم از کم دو ہفتے قبل لازمی ایجنڈا اور متعلقہ دستاویزات تقسیم کرنا چاہیے۔
تاہم، آئی ایم ایف کے ذرائع نے واضح کیا ہے کہ تمام اجلاس کیلنڈر میں شامل نہیں ہوتے، مثال کے طور پر، اپریل کے دوسرے ہفتے میں عالمی ادارے نے اپنی ویب سائٹ پر ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس کے شیڈول شائع کیا، جس میں پاکستان شامل نہیں تھا۔
ڈاکٹر عابد سلہری نے کہا کہ وفاقی اور پنجاب حکومتوں نے توانائی پر سبسڈی دی ہے، جس کا انتظام سالانہ ترقیاتی منصوبوں اور مختلف مالیاتی ذرائع میں کمی کے ذریعے کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ 13 جولائی کو آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان 7 ارب ڈالر قرض پروگرام کا اسٹاف لیول معاہدہ طے پاگیا تھا، جس کا دورانیہ 37 ماہ ہوگا، تاہم یہ آئی ایم ایف ایگزیکٹیو بورڈ کی منظوری سے مشروط ہے۔