ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا تعارف:
ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا نام ’’عائشہ‘‘ اور لقب ’’صدیقہ‘‘ اور ’’ حمیرا‘‘ ہے۔ اُن کی کنیت ’’اُم عبداللہ ‘‘ اور خطاب ’’ اُم المؤمنین‘‘ ہے۔ آپ کے والد ماجد خلیفۂ اول امیر المؤمنین حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور والدۂ ماجدہ مشہور صحابیہ حضرت ام رومان رضی اللہ عنہا ہیں ۔ آپ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے محبوب بیوی ہیں ۔ آپ رضی اللہ تعالٰی عنھا ایک دریا دل، عالی ظرف، غریبوں کی ہمدرد و غمگسار، خواتین کے حقوق کی علمبردار اورمال و دولت سے مستغنیٰ اور بے نیاز خاتون تھیں۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی ولادت:
اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے سنہ ولادت کے بارے میں تاریخ و سیرت کتابیں خاموش نظر آتی ہیں ۔ لیکن یہ بات متفقہ طور پر تسلیم کی گئی ہے کہ ہجرت کے وقت آپ کی عمر شریف ۶؍ سال تھی۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا سنہری بچپن:
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے خلیفۃ المسلمین حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اس مقدس اور مبارک خاندان میں پیدا ہوئیں ۔ جس میں سب سے پہلے اسلام کی کرنوں نے اپنا اجالا بکھیرا۔ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا گھر ابتدا ہی سے نبوت کے نور سے روشن و منور رہا ۔ کفر و شرک کا اس گھرا نے میں دور دور تک پتا نہ تھا اسی نورانی ماحول میں آنکھ کھولنے والی ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا دامن بھی ہمیشہ کفر و شرک کی گندگیوں سے پاک و صاف رہا۔ بچپن ہی سے آپ نے اسلامی اور ایمانی فضا میں اپنی گزر بسر کی ۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی تعلیم و تربیت :
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بچپن ہی سے بے پناہ ذہین اور مثالی قوتِ حافظہ کی مالکہ تھیں ۔ آپ کے والدِ ماجد خلیفۃ المسلمین سیدناصدیق اکبر رضی اللہ عنہ بھی بڑے علم و فضل والے اور حکمت و دانائی کے مجموعہ تھے۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم پوری کائنات کے معلمِ اعظم کی حیثیت سے بھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی تربیت فرماتے رہے ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو اللہ رب العزت نے ذہانت عطا فرمائی تھی یہی وجہ ہے حدیث کی کتابوں میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کردہ حدیثوں کی کافی تعداد ہے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا نکاح :
ایک روایت کے مطابق حضرت عائشہؓ ہجرت سے 3 برس قبل حضور اکرم ﷺ سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئیں اور 9 برس کی عمرمیں رخصتی ہوئی۔ ان کا مہر بہت زیادہ نہ تھا صرف 500 درہم تھا۔
بارگاہِ خداوندی میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا مرتبہ :
اللہ عزوجل کی بارگاہ میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا بڑا مرتبہ ہے ۔ جب آپ رضی اللہ عنہا پر منافقوں نے بہتان باندھا تو اس وقت اللہ جل شانہٗ نے برأت کے لیے قرآنِ کریم کی سترہ آیتیں اتار دیں ۔ جو قرآن مجید کا حصہ ہیں اور ان شآء اللہ ہمیشہ آپ کی عظمت و بزرگی اور عزت و عصمت کا اظہار کرتی رہیں گی۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ کی اجازت سے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حضرت جبریلِ امین علیہ السلام نے آپ کی شبیہ لائی اور عرض کیا کہ :’’یارسول اللہ! یہ آپ کی دنیا و آخرت میں بیوی ہوں گی۔ ‘‘ اور تین مرتبہ خواب میں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا دکھائی گئی تھیں ۔
بارگاہِ رسالت میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا مرتبہ :
نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں ساری امت کی مقدس ماں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا جو مقام و مرتبہ اور عظمت و عزت تھی وہ کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہے۔ احادیث اور سیرت کی کتابوں میں ایسی سیکڑوں روایتیں موجود ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زوجۂ محترمہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے بے پناہ محبت و الفت فرمایا کرتے تھے۔
حدیث مبارک :
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ :’’ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ عائشہ(رضی اللہ عنہا) کی فضیلت تمام عورتوں پر ایسی ہے جیسی ’’ثرید‘‘ کی فضیلت تمام کھانوں پر ہے۔‘‘(بخاری ومسلم و ترمذی شریف) ___(’’ثرید‘‘سالن یا شوربے وغیرہ میں روٹی کے ٹکڑے ڈال کر تیار کیے جانے والے کھا نے کو کہتے ہیں جو محبوبِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوب غذاؤں میں سے ایک ہے، جس کے بارے میں اطبا کا خیال ہے کہ ایسا کھانا صحت کو برقرار رکھنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے)
حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک مرتبہ عرض کیا کہ : ’’ یارسول اللہ ! آپ کو لوگوں میں سب سے زیادہ کون پسند ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ عائشہ (رضی اللہ عنہا)۔ (بخاری و ترمذی شریف)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا علمی مقام و مرتبہ
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ :’’ تمام ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن پر مجھے چار چیزوں میں فضیلت حاصل تھی۔
(۱) نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے کنواری ہونے کی حالت میں شادی فرمائی جب کہ میرے علاوہ کوئی بھی بیوی کنواری نہیں تھی۔
(۲) جب سے مَیں آپﷺ کے نکاح میں آئی قرآن میرے ہی گھر میں نازل ہوتا تھا کسی اور بیوی کے گھر میں نازل نہیں ہوتا تھا۔
(۳) میرے معاملہ میں صفائی کے لیے قرآنِ کریم کی آیتیں نازل ہوئیں جو قیامت تک پڑھی جائیں گی۔
(۴) میرے نکاح سے پہلے دو مرتبہ حضرت جبریل امین علیہ السلام میری تصویر لے کر نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے۔
(۵) دور نبوی کی کوئی خاتون ایسی نہیں جس نے ام المومنین عائشہؓ سے زیادہ رسول اللہ محمد ﷺ سے احادیث روایت کرنے کی سعادت حاصل کی ہو۔ صدیقہؓ سے 174 احادیث ایسی مروی ہیں جو بخاری و مسلم میں ہیں۔
نبیِ کریمﷺ کے ساتھ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا دوڑ لگانا
حضرت امام احمد رحمۃ اللہ علیہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا:’’ ایک دفعہ ایک غزوہ کے موقع پرسفر میں مَیں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھی۔ میری عمر اس وقت چھوٹی تھی اور میرا بدن ہلکا پھلکا تھا۔نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمام صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم کو حکم دیا کہ وہ آگے چلے جائیں ، وہ سب آگے چلے گئے پھر نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا:’ آؤ آپس میں دوڑ لگائیں ، دیکھیں کون دوڑ میں آگے نکلتا ہے؟ ‘ ‘
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ :’’مَیں نے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دوڑ لگائی۔مَیں دُبلی پتلی تھی اس لیے دوڑ میں مَیں آپﷺ سے آگے نکل گئی۔ لیکن اس موقع پر نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے۔ کچھ عرصہ بعد پھر اسی قسم کا واقعہ پیش آیا۔میں فربہ ہو گئی اور وہ واقعہ بھول گئی تھی۔ ایک مرتبہ سفر میں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھی ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو حکم دیا تم آگے چلے جاؤ۔ وہ سب آگے چلے گئے تو نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا:’ آؤ دوڑ لگائیں اور دیکھیں کہ کون آگے نکلتا ہے۔‘ چناں چہ اِس مرتبہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم آگے نکل گئے۔آپ مسکرا نے لگے اور فرمایا: ’’ اے عائشہ ! یہ اس دن کا جواب اور بدلہ ہے ۔‘‘
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی وفات
وفات کے وقت آپ رضی اللہ عنہا کی عمر شریف سڑ سٹھ سال تھی۔ ۵۸ھ رمضان المبارک میں آپ بیمار ہوئیں چند روز علیل رہیں ۔ بالآخر منگل کے روز ۱۷؍ رمضان المبارک ۵۸ھ کو نمازِ وتر کے بعد رات کے وقت میں اس دنیا سے رخصت ہوئیں ۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے وفات سے پہلے وصیت فرمائی تھی کہ مجھے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری بیویوں کے ساتھ جنت البقیع میں وفات کے فوراً بعد ہی دفن کیا جائے ۔ چناں چہ آپ رضی اللہ عنہا کو رات ہی کے وقت جنت البقیع میں دفن کر دیا گیا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نمازِ جنازہ پڑھائی.