چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کے عہدے کی باقی مدت سابق فوجی حکمران پرویز مشرف اور جسٹس قاضی عیسیٰ کے مقدموں کیلیے اہم ہوگا۔
21 دسمبر کو رٹائر ہونے والے چیف جسٹس نے سیاسی ،عدالتی حکام کے خلاف فیصلے دیے ہیں۔ وہ این آراو کیس کے دوران 2010ء میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو نااہل کرنے والے 7 رکنی بینچ کاحصہ تھے۔
انھوں نے مذکورہ فیصلے میں اضافی نوٹ لکھا تھا۔ وہ 2017ء میں پاناما لیکس کامقدمہ سننے والے بنچ کا بھی حصہ تھے، وہ پہلے جج تھے جنھوں نے آئین کے آرٹیکل 62(1) ایف کے تحت سابق وزیراعظم نوازشریف کو نااہل قرار دیا تھا۔ جسٹس کھوسہ نے ہائیکورٹ کے دوججوں کیخلاف بھی فیصلے دیئے تھے۔
انھوں نے سپریم جوڈیشل کونسل کے رکن کی حیثیت سے اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج شوکت عزیز صدیقی کو ہٹانے کی رائے دی تھی تاہم جسٹس کھوسہ نے پاناما کیس کی عدالتی کارروائی میں ساز باز کے الزامات کی تفتیش نہیں کی تھی۔ان کے فیصلوں کے متعلق متضاد آراء ہیں۔
وکلاء کے ایک گروپ کے مطابق کھوسہ کے دورمیں سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ زیادہ مضبوط ہوئی ہے کیونکہ انھوں نے ملک میں جاری ’’ناہمواراحتساب‘‘ کانوٹس نہیں لیا۔دوسرے گروپ کے مطابق پرویزمشرف کیخلاف غداری کامقدمہ فعال کرنے میں ان کا اہم کردارہے جو تاریخ میں یاد رہے گا۔
پشاورہائیکورٹ کے چیف جسٹس وقاراحمد ، جسٹس نذراکبر اور جسٹس شاہد کریم پرمشتمل خصوصی عدالت اس مقدمے میں 28 نومبرکومشرف کیخلاف فیصلہ سنائے گی تاہم جسٹس فائزعیسی کی قانونی ٹیم کے مطابق 21 دسمبر تک ان کے مقدمے کافیصلہ ہونا ناممکن ہے۔