حکوت سندھ نے کل سے کراچی سمیت سندھ کے تمام بڑے شہروں میں آٹھ اگست تک لاک ڈاؤن نافذ کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ سندھ کرونا ٹاسک فورس کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ 31اگست تک ویکسین نہ لگوانے والے افراد کو تنخواہیں ادا نہیں کی جائیں گی اور سڑکوں پر نظر آنے والے افراد کا ویکسینیشن کارڈ چیک کیا جائے گا۔
لاک ڈاؤن اور نئی پابندیوں کے پیش نظر کراچی کے سب سے بڑے ویکسینیشن سینٹر پر لوگوں کا تانتا بندھا ہوا ہے۔ کراچی کے ایکسپو سینٹر پر 24 گھنٹے ویکسین لگوانے کی سہولت موجود ہے. جس کے باعث وہاں دن رات لمبی لمبی قطاروں میں لگ کر لوگ اپنی پہلی یا دوسری ڈوز لگوا رہے ہیں۔
یکسپو سینٹر پر زیادہ تر ویکسین کی پہلی ڈوز لگوانے والے افراد موجود تھے جنہوں نے اتنے عرصے بعد ویکسین لگوانے کی مختلف وجوہات بتائیں۔
کراچی کے علاقے گلشن اقبال سے تعلق رکھنے والی کوثر پروین نے ایکسپو سینٹر پر دو گھنٹے لائن میں لگ کر اپنی ویکسین کی پہلی ڈوز لگوائی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ہم کرونا کو سیریس ہی نہیں لے رہے تھے اس لیے پہلے ویکسین لگوانے نہیں آئے۔ اب ہسپتال بھر رہے ہیں تو ہمیں بھی احساس ہوا ہے کہ ویکسین لگوا لینی چاہیے۔‘
البتہ ایکسپو سینٹر پر موجود ثنا نے ہمیں بتایا کہ انہوں نے ڈر کی وجہ سے پہلے ویکسین نہیں لگوائی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے ابھی معلومات حاصل ہوئیں اس لیے میں نے سوچا کہ ویکسین لگوا لوں۔ پہلے مجھے ویکسین لگوانے سے ڈر لگ رہا تھا کیوں کہ لوگ طرح طرح کی باتیں کر رہے تھے۔‘
ویکسین لگوانے کے لیے آئے کچھ لوگ ایسے بھی تھے جنہوں نے ڈھائی سے تین گھنٹے تک اپنی باری کا انتظار کیا۔
ایسے ہی ایک شخص سعید کا کہنا تھا کہ ’دو گھنٹوں تک لائن اپنی جگہ رکی ہوئی تھی۔ ہمیں انتظار کرنے کا کہا گیا تھا۔ بڑی مشکل سے انہوں نے دروازے کھول کر لوگوں کو اندر بلانا شروع کیا۔‘
وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ نے کرونا ٹاسک فورس کے اجلاس کے بعد آٹھ اگست تک لاک ڈاؤن کا اعلان کیا اور 31 اگست تک ویکسین نہ لگوانے والے افراد کو تنخواہیں دینے پر پابندی کا بھی اعلان کیا۔
اس سے قبل سندھ حکومت کی جانب سے ویکسین نہ لگوانے والے افراد کی سم بلاک کروانے کا عندیہ بھی دیا گیا تھا۔
اس حوالے سے ہم نے ایکسپو سینٹر پر ویکسینیشن کے لیے موجود چند لوگوں سے بات کی۔
کراچی میں رکشہ چلانے والے نوید نے تنخواہ کی پابندی پر قہقہہ لگاتے ہوئے کہا کہ ’میں تو رکشہ چلاتا ہوں میرا تنخواہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مگر مجھے ویکسینیشن کارڈ کے بغیر رکشہ چلانے نہیں دیں کے اس لیے آج آیا ہوں۔‘
اسی طرح ویکسینیشن سینٹر پر اپنے کزنز کے ساتھ آئے محمد شعیب نے ہمیں بتایا کہ ’میرا الحمدللہ اپنا بزنس ہے اس لیے مجھے تنخواہ نہ ملنے کا کوئی ڈر نہیں لیکن مجھے اپنے کاروبار میں ویکسین نہ لگوانے کے باعث کچھ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے اس لیے میں اب ویکسین لگوانے آیا ہوں۔‘
اپنی باری کا انتظار کرتی ہوئی ایرج سے ہم نے پوچھا کہ کل سے آٹھ اگست تک لگنے والے لاک ڈاؤن کے حوالے سے کیا تاثرات ہیں؟ تو ان کا کہنا تھا کہ ’یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ حکومت نے یہ قدم اٹھایا ہے۔‘
اسی طرح لائن میں ڈیڑھ گھنٹے سے انتظار کرنے والے ابدال مدثر اپنی دوسری ڈوز لگوانے آئے تھے کیوں کہ ان کی کمپنی نے اسے لازمی قرار دیا ہے۔ ان کا سڑکوں پر نکلے ہوئے لوگوں کے ویکسینیشن کارڈ چیک کرنے کے اقدامات کے حوالے سے کہنا تھا کہ ’یہ ایک اچھا اقدام ہے۔ ہمارے عوام کا مائنڈ سیٹ اب بھی یہی ہے کہ کرونا اور ویکسین کوئی سازش ہیں، مگر ایسا کچھ نہیں ہے۔ لوگوں کو گھروں سے نکلنا پڑے گا اور حکومت کو لوگوں کے ساتھ زبردستی کرنی پڑے گی ورنہ یہ لوگ ویکسین نہیں لگوائیں گے۔‘