نور مقدم قتل کیس میں ظاہر جعفر سمیت 12 ملزمان پر فرد جرم عائد کرنے کے لیے 6 اکتوبرکی تاریخ مقرر کر دی گئی جب کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے مرکزی ملزم کے والدین کی ضمانت کی درخواست پر دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
ایڈیشنل سیشن جج اسلام آبادعطا ربانی نے نور مقدم قتل کیس کی سماعت کی جس دوران مرکزی ملزم ظاہر جعفر سمیت 6 ملزمان کو عدالت کے سامنے پیش کیا گیا جب کہ ضمانت پر رہائی پانے والے تھراپی ورکس کے طاہر ظہور سمیت 6 ملزمان خود عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔
تمام ملزمان میں چالان کی نقول تقسیم کی گئیں جس کے بعد عدالت نے تمام ملزمان کو 6 اکتوبر کو فرد جرم عائد کرنے کے لیے طلب کر لیا۔
ملزم کے والدین کی درخواست ضمانت پر سماعت
دوسری جانب اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس عامر فاروق نے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے والدین ذاکر جعفر اور عصمت ذاکر کی درخواست ضمانت پر سماعت کی۔
عدالت نے استفسار کیا اندازاً قتل کا وقت کیا ہے؟ اس پر شاہ خاور ایڈووکیٹ نے کہا کہ سی سی ٹی وی فوٹیج کے مطابق نور مقدم نے 6:35 پر چھلانگ لگا کر جان بچانے کی کوشش کی، قتل کا واقعہ شاید سوا 7 سے ساڑھے 7 بجے کے درمیان ہوا ہوگا، مرکزی ملزم ظاہر جعفر وقوعہ کے روز اپنے والدین سے مسلسل رابطے میں تھا، شواہد کے مطابق والدین ملزم سے رابطے میں تھے اور جرم سے ان کا تعلق بنتاہے، انتہائی بہیمانہ قتل تھا اس میں ضمانت نہ دی جائے۔
سرکاری وکیل نے بتایاکہ زبیر نامی شہری نے پونے 10 بجے پولیس کو اطلاع دی اور پولیس 10 بجے موقع پر پہنچ گئی، اس وقت تھراپی ورکس والے وہاں موجود تھے اور زخمی ملازم امجد اسپتال جاچکا تھا۔
خواجہ حارث نے بتایا کہ ذاکر جعفر نے 7 بج کر 7 منٹ پر تھراپی ورکس والوں کو گھر پہنچنے کا کہا۔
دورانِ سماعت پولیس نے بتایا کہ سی سی ٹی وی فوٹیج کے مطابق تھراپی ورکس والے 8 بج کر 6 منٹ پر گھر پہنچے اورکھڑکی کے راستے 8 بج کر 45 منٹ پر گھر کے اندر داخل ہوئے، ظاہر جعفر کے موبائل فون کی اسکرین ٹوٹی ہوئی تھی جب کہ مقتولہ کے آئی فون کا پاس ورڈ نہیں مل رہا۔
اس پر جسٹس عامر فاروق نے کہا مارکیٹ سے کوئی ہیکر پکڑیں۔
بعد ازاں عدالت نے دلائل سننے کے بعد مرکزی ملزم کے والدین کی درخواست ضمانت پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔