سپریم کورٹ نے وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے معاملے میں توہین عدالت کے ٹھوس شواہد مانگ لیے، درخواست کی سماعت غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کردی گئی۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ نے آنکھیں بند نہیں کیں، عدالتی حکم کی خلاف ورزی ہوئی تو خاموش نہیں رہیں گے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ماحول الزامات اور جوابی الزامات کی وجہ سے تناؤ کا شکار ہے ۔
وکیل فیصل چوہدری نے عدالت میں کہا کہ اب تک الیکشن کمیشن نے منتخب ہونے والے اراکین کا نوٹیفکیشن نہیں کیا۔
جسٹس اعجاز نے کہا کہ عدالتی حکم کے مطابق وزیراعلیٰ کے انتخاب سے قبل الیکشن کمیشن نوٹیفکیشن کا پابند ہے، اگر الیکشن کمیشن نوٹیفکیشن نہ کرے تو ہمارا دروازہ کھٹکھٹائیں۔
وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں ہمارا کام سیدھا رہے، جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ہم بھی یہاں بیٹھے ہوئے ہیں۔
پی ٹی آئی وکیل نے کہا کہ عدالت اراکین اسمبلی کی اجلاس میں شرکت پر عملدرآمد کرائے، جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں حمزہ شہباز اور ان کی کابینہ کو وزیراعلیٰ کا انتخاب شفاف طریقے سے کرانے کا کہا، رانا ثنا اللّٰہ تو حمزہ شہباز کی کابینہ کا حصہ نہیں ہیں۔
وکیل پی ٹی آئی نے بتایا کہ وفاقی وزیر داخلہ کے بیان سے ماحول میں تناؤ پیدا ہوا ہے، انتخابات کے لیے پرسکون ماحول درکار ہے۔
جسٹس منیب اختر کاکہنا تھا کہ سمجھتے ہیں کہ کل ہونے والے الیکشن میں مقابلہ سخت ہے، ماحول الزامات اور جوابی الزامات کی وجہ سے تناؤ کا شکار ہے، اس طرح کے سیاسی بیانات دونوں طرف سے دیے جاتے ہیں۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ سپریم کورٹ نے آنکھیں بند نہیں کیں، اگر سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی ہوئی تو خاموش نہیں رہیں گے۔