سپریم کورٹ نے صحافیوں کو ہراساں کرنے کے خلاف از خود نوٹس پر آج کی سماعت کا حکم نامہ لکھوا دیا۔
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ تنقید کرنا ہر شہری اور صحافی کا حق ہے، معاملہ صرف تنقید تک ہے تو کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی جائے۔ عدالت نے کہا ہے کہ اٹارنی جنرل نے حکومت کی جانب سے تنقید پر کارروائی نہ کرنے کی یقین دہانی کروا دی۔
صحافیوں کی ہراسگی سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں ہوئی۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کتنے کیسز ہیں؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ یہ چار درخواستیں ہیں جن میں قیوم صدیقی اور اسد طور درخواست گزار ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ قیوم صدیقی بتائیں کیس خود چلانا ہے یا صدر پریس ایسوسی ایشن دلائل دیں گے؟ جس پر عبدالقیوم صدیقی نے کہا میں کچھ حقائق سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔
چیف جسٹس نے کہا عبدالقیوم صدیقی آپ نے تو کہا تھا کہ آپ اس کیس کو چلانا نہیں چاہتے، جس پر عبدالقیوم صدیقی نے کہا جب معاملہ جسٹس اعجازالاحسن کے بینچ میں گیا تو کہا تھا کہ کیس نہیں چلانا چاہتا۔
جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ صحافیوں کی شکایت کو دیکھا ہی نہیں گیا تھا، سپریم کورٹ نے کیس نمٹانے کے بجائے 2021 سے سرد خانے میں رکھ دیا، عبدالقیوم صدیقی بتائیں کہ تب کیا درخواست تھی آپ کی اور اب کیا ہے؟
چیف جسٹس نے کہا کہ یا تو سرکار کہتی کہ آرٹیکل 19 پر عمل نہیں کرانا یا داد رسی کرتی، بنیادی حقوق کو زندہ رکھیں یا پھر یہ صرف محض کاغذ پر تحریر سمجھیں، یہ کیس دفن ہونے کے ساتھ تو بنیادی حقوق بھی دفن ہو گئے، میں تو اپنے ادارے پر پہلے بات کروں گا، کب تک ماضی کی غلطیاں دہرائیں گے؟ مجھ پر تنقید کریں گے تو مجھے میری غلطی معلوم ہو گی۔
بعد ازاں عدالت نے وفاقی حکومت کو ہدایت کی کہ صحافیوں پر تشدد سے متعلق رپورٹ دو ہفتوں میں فراہم کی جائے۔