سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر نے کہا ہے کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کو منصب سے ہٹانے کا مطالبہ ایک ’سرخ لکیر‘ ہے۔
بی بی سی سے خصوصی بات چیت میں عادل الجبیر کا کہنا تھا کہ ولی عہد دو اکتوبر کو استنبول میں سعودی قونصل خانے میں صحافی جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث نہیں ہیں۔
انھوں نے یہ بات امریکی سینیٹ کے ارکان کی اس درخواست کے بعد کہی جس میں صدر ٹرمپ سے سعودی ولی عہد کے اس قتل ملوث ہونے یا نہ ہونے کی دوبارہ تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ایک بیان میں امریکہ کے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کا دفاع کیا ہے مگر یہ بھ کہا کہ ہو سکتا ہے ولی عہد جمال خاشقجی کے وحشیانہ قتل کے بارے میں ’اچھی طرح‘ جانتے تھے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہو سکتا ہے وہ جانتے ہوں اور ہو سکتا ہے ایسا نہ ہو۔‘
جمال خاشقجی کو دو اکتوبر کو استنبول میں واقع سعودی عرب کے قونصل خانے میں قتل کر دیا گیا تھا اور ان کی لاش تاحال نہیں ملی ہے
سعودی وزیر خارجہ نے کیا کہا؟
ریاض میں بی بی سی کی چیف بین الاقومی نامہ نگار لیز ڈوسیٹ سے بات کرتے ہوئے عادل الجبیر نے کہا کہ ’سعودی عرب میں ہماری قیادت ایک سرخ لکیر ہے۔ خادم الحرمین شریفین (شاہ سلمان) اور ولی عہد (محمد بن سلمان) ایک سرخ لکیر ہیں۔‘
’وہ ہر سعودی شہری کے نمائندہ ہیں اور ہر سعودی شہری ان کی نمائندگی کرتا ہے۔ ہم ایسی کوئی بات چیت برداشت نہیں کریں گے جو ہماری بادشاہت یا ہمارے ولی عہد کے حوالے سے توہین آمیز ہو۔‘
عادل الجبیر نے اس بات کو دہرایا کہ ولی عہد جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث نہیں ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے یہ بہت واضح کر دیا ہے۔ ہماری تحقیقات جاری ہیں اور ہم ان افراد کو سزا دیں گے جو اس کے ذمہ دار ہیں۔‘
امریکی ذرائع ابلاغ میں یہ خبریں آئی تھیں کہ سی آئی اے کے خیال میں یہ بیہمانہ قتل صرف ولی عہد کے حکم پر ہی ہو سکتا تھا۔
تاہم عادل الجبیر نے اس خبروں سے اختلاف کیا اور کہا کہ یہ قتل انٹیلی جنس ایجنٹس کی ایک ’بددیانت کارروائی‘ تھی۔
سعودی وزیر خارجہ نے ایک بار پھر ترکی کو قتل سے متعلق تمام ثبوت فراہم کرنے اور معلومات لیک نہ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔