سپریم کورٹ نے جامعات کی بھرمار اور ڈگریوں سے متعلق کیس میں اٹارنی جنرل اور ہائر ایجوکیشن کمیشن سے 15 روز میں جواب طلب کر لیا۔
سپریم کورٹ میں نجی جامعات کی بھرمار، ڈگریوں اور گجرانوالہ میں خواتین اسکول پر تجاوزات سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔
جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔
جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ تعلیمی سیکٹر تباہ ہو رہا ہے، حکومت ان معاملات کو کیوں نہیں دیکھتی ہے، جامعات کی مشروم گروتھ ہو رہی ہے اور ڈگریاں بیچی جا رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہماری نسلیں تباہ ہو رہی ہیں۔ ایک نسل تباہ ہو چکی ہے اور دوسری لائن میں لگی ہوئی ہے۔ یہ معاملات عدالتوں میں لانے سے مسئلہ حل نہیں ہو گا۔
جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ پرسٹن یونیورسٹی کا مین کیمپسس کوہاٹ میں ہے اور بورڈ میں نے کراچی میں بھی دیکھا جب کہ الخیر یونیورسٹی نے ایگزیکٹ والا کام شروع کر رکھا ہے۔
دوسری طرف گجرانوالہ میں خواتین اسکول پر تجاوزات پر پنجاب حکومت کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ محکمہ تعلیم کو متبادل زمین دینے کے لیے تیار ہیں۔
جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ خواتین کا اسکول ٹرسٹ کی زمین پر اور شہر کے دل میں تھا اور ٹرسٹ پراپرٹی کی جگہ کچی آبادی کیسے بن گئی جب کہ ٹرسٹ زمین کو ریگولر کرنا قانون کے خلاف ہے۔
انہوں نے استفسار کیا کہ غیر قانونی کام کرنے والے افسران کے خلاف کیا کارروائی ہوئی ؟ چیف سیکرٹری پنجاب کل تک مسئلہ حل کریں اور اگر چھوٹا سا مسئلہ بھی حل نہیں کر سکتے تو عہدے پر کیوں براجمان ہیں ؟
جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ چیف سیکرٹری مسئلہ حل کریں ورنہ نتائج بھگتیں، اسکول کے لیے زمین 13 کلومیٹر دور دینے کا کیا جواز ہے بچے اتنا دور کیسے جائیں گے ؟ کچی آبادی کو کیوں نہیں منتقل کر دیتے ؟
عدالت نے گجرانوالہ اسکول کی زمین سے متعلق کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی۔