اردو ادب کے درخشاں ستارے کا آج 107 واں یوم پیدائش منایا جارہا ہے،سعادت حسن منٹو کے بغیر اردو افسانہ نگاری کا تذکرہ نامکمل ہے۔
منٹو 11 مئی 1912 کو سمرالہ ضلع لدھیانہ میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم امرتسر میں حاصل کی پھر کچھ عرصہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں گزارا مگر تعلیم مکمل نہ کرسکے اور واپس امرتسر آگئے۔
ابتداء میں انہوں نے لاہور کے رسالوں میں کام کیا پھر آل انڈیا ریڈیو دہلی سے وابستہ ہوگئے جہاں انہوں نے بعض نہایت کامیاب ڈرامے اور فیچر لکھے۔ بعدازاں بمبئی منتقل ہوگئے جہاں متعدد فلمی رسالوں کی ادارت کی اس دوران متعدد فلموں کی کہانیاں اور مکالمے بھی تحریر کئے۔ قیام پاکستان کے بعد وہ لاہور چلے آئے اور اپنی عمر کا آخری حصہ اسی شہر میں بسر کیا۔ منٹو کے موضوعات میں بڑا تنوع ہے۔ ایک طرف تو انہوں نے جنس کو موضوع بنایا۔ دوسری طرف ہندوستان کی جنگ آزادی سیاست، انگریزوں کے ظلم وستم اور فسادات کو افسانوں کے قالب میں ڈھال دیا۔
انہوں نے 20 برس کی ادبی زندگی میں 200 سے زیادہ کہانیاں تحریر کیں ان کی حقیقت پسندی، صداقت پروری، جرات و بے باکی اردو ادب میں ضرب المثل بن چکی ہیں۔
منٹو کی مشہور تخلیقات میں ٹوبہ ٹیک سنگھ، نیا قانون، نمرود کی خدائی، سڑک کے کنارے اور دھواں نمایاں ہیں۔ سعادت حسن منٹو نے 18 جنوری 1955ء کو جگر کی بیماری میں وفات پائی۔ وہ لاہور میں میانی صاحب کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔ منٹو نے اپنی قبر کا قطبہ بھی خود ہی تحریر کیا تھا کہ یہ سعادت حسن منٹو کی قبر ہے جو اب بھی سمجھتا ہے کہ اس کا نام لوح جہاں میں حرف مقرر نہیں تھا.
سعادت حسن منٹو کی زندگی پر نہ صرف پاکستانی فلم انڈسٹری میں سوانح حیات بنائی گئی جبکہ بھارت میں بھی ان کی زندگی کے اہم پہلو کو اجاگر کیا گیا.