قربانی کی اِبتداء ہمیں حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے سے ہی ملتی ہے جب حلال جانور کو نیتِ تقرب ذبح کرنے کی تارِیخ حضرت آدَم علیہ السلام کے دو بیٹوں ہابیل وقابیل کی قربانی سے ہی شروع ہوجاتی ہے، یہ سب سے پہلی قربانی تھی۔
قران کریم میں اِرشاد ہے:
ترجمہ:۔ ”اور آپ اہلِ کتاب کو آدم کے دو بیٹوں کا واقعہ صحیح طور پر پڑھ کر سنا دیجیے، جب ان میں سے ہرایک نے اللہ کے لیے کچھ نیاز پیش کی تو ان میں سے ایک کی نیاز مقبول ہوگئی، اور دُوسرے کی قبول نہیں کی گئی“۔
علامہ اِبن کثیر رحمہ اللہ نے اِس آیت کے تحت حضرت اِبن عباس رَضی اللہ عنہ سے رِوایت نقل کی ہے کہ ہابیل نے مینڈھے کی قربانی کی اور قابیل نے کھیت کی پیداوار میں سے کچھ غلہ صدقہ کرکے قربانی پیش کی، اُس زمانے کے دستور کے موافق آسمانی آگ نازل ہوئی اور ہابیل کے مینڈھے کو کھا لیا، قابیل کی قربانی کو چھوڑ دِیا۔(۲)
اِس سے معلوم ہوا کہ قربانی کا عبادت ہونا حضرت آدَم علیہ السلام کے زمانے سے ہے اور اس کی حقیقت تقریباً ہرملت میں رہی؛ البتہ اس کی خاص شان اور پہچان حضرت اِبراہیم و حضرت اِسماعیل علیہما السلام کے واقعہ سے ہوئی، اور اسی کی یادگار کے طور پراُمتِ محمدیہ پر قربانی کو واجب قرار دیا گیا۔
قربانی کی حقیقت قرآنِ کریم کی روشنی میں
قرآنِ کریم میں تقریباً نصف دَرجن آیاتِ مبارکہ میں قربانی کی حقیقت ، حکمت اور فضیلت بیان کی گئی ہے۔ سورة حج میں ہے:
۱-۲: وَالْبُدْنَ جَعَلْنٰھَا لَکُمْ مِّنْ شَعَآئِرِ اللّٰہِ لَکُمْ فِیْھَا خَیْرٌ فَاذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ عَلَیْھَا صَوَآفَّ فَاِذَا وَجَبَتْ جُنُوْبُھَا فَکُلُوْا مِنْھَا وَاَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ ط کَذٰلِکَ سَخَّرْنٰھَا لَکُمْ لَعْلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ(۳۶) لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُھَا وَلَا دِمَآؤُھَا وَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْط کَذٰلِکَ سَخَّرَھَا لَکُمْ لِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ھَدٰکُمْ ط وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِیْنَ(۳۷)“․(۳)
ترجمہ:۔ ”اور ہم نے تمہارے لیے قربانی کے اُونٹوں کو عبادتِ اِلٰہی کی نشانی اور یادگار مقرر کیا ہے، ان میں تمہارے لیے اور بھی فائدے ہیں، سو تم اُن کو نحر کرتے وقت قطار میں کھڑا کرکے اُن پر اللہ کا نام لیا کرو اور پھر جب وہ اپنے پہلو پر گر پڑیں تو اُن کے گوشت میں سے تم خود بھی کھانا چاہو تو کھاوٴ اور فقیر کو بھی کھلاوٴ، خواہ وہ صبر سے بیٹھنے والا ہو یا سوال کرتا پھرتا ہو، جس طرح ہم نے اِن جانوروں کی قربانی کا حال بیان کیا، اِسی طرح اُن کو تمہارا تابع دار بنایا؛ تاکہ تم شکر بجالاوٴ! اللہ تعالیٰ کے پاس ان قربانیوں کا گوشت اور خون ہرگز نہیں پہنچتا؛ بلکہ اس کے پاس تمہاری پرہیزگاری پہنچتی ہے ، اللہ تعالیٰ نے ان جانوروں کو تمہارے لیے اِس طرح مسخر کردِیا ہے؛ تاکہ تم اس احسان پر اللہ تعالیٰ کی بڑائی کرو کہ اس نے تم کو قربانی کی صحیح راہ بتائی، اور اے پیغمبر! مخلصین کو خوش خبری سنا دیجیے“۔
قربانی احادِیث مبارکہ کی روشنی میں
عن حسین بن علی رضی اللہ عنہما قال:قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من ضحی طیبة نفسہ محتسباً لاضحیتہ کانت لہ حجاباً من النار۔“(۲۰)
ترجمہ:۔ ”حضرت حسین بن علی رَضی اللہ عنہ سے مروِی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وَسلم نے فرمایا: جو شخص خوش دِلی کے ساتھ اجر وثواب کی اُمید رَکھتے ہوئے قربانی کرے گا تو وہ اس کے لیے جہنم کی آگ سے رُکاوَٹ بن جائے گی“۔
قربانی کی حقیقت
مندرجہ بالا آیات واحادِیث کی روشنی میں قربانی کی حقیقت معلوم ہوئی، اس کو مختصر الفاظ میں بیان کرنا چاہیں تو یوں کہا جاسکتا ہے:
۱:- قربانی سنت اِبراہیمی کی یادگار ہے۔
۲:- قربانی کی ایک صورَت ہے اور ایک رُوح ہے، صورَت تو جانور کا ذبح کرنا ہے، اور اس کی حقیقت اِیثارِ نفس کا جذبہ پیدا کرنا ہے اور تقرب اِلی اللہ ہے۔(۲۲)
اصل میں قربانی کی حقیقت تو یہ تھی کہ عاشق خود اپنی جان کو خدا تعالیٰ کے حضور پیش کرتا؛ مگر خدا تعالیٰ کی رحمت دیکھئے، ان کو یہ گوارا نہ ہوا؛ اِس لیے حکم دِیاکہ تم جانور کو ذبح کرو ہم یہی سمجھیں گے کہ تم نے خود اپنے آپ کو قربان کردِیا۔ اِس وَاقعہ (ذبح اِسماعیل علیہ السلام) سے معلوم ہوا کہ ذبح کا اصل مقصد جان کو پیش کرنا ہے؛ چنانچہ اس سے اِنسان میں جاں سپارِی اور جاں نثارِی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اوریہی اس کی رُوح ہے تو یہ رُوح صدقہ سے کیسے حاصل ہوگی؟ کیونکہ قربانی کی رُوح تو جان دینا ہے اور صدقہ کی رُوح مال دینا ہے، نیز صدقہ کے لیے کوئی دِن مقرر نہیں؛ مگر اس کے لیے ایک خاص دِن مقرر کیا گیا ہے اور اس کا نام بھی یوم النحر اور یوم الاضحی رکھا گیا ہے۔(۲۳)
قربانی کا حکم
قربانی کی دو قسمیں ہیں: ایک واجب، دوسری مستحب۔
اگر کوئی آدمی، عاقل، بالغ آزاد، مقیم، مسلمان اور مال دار ہو تو اس پر قربانی کرنا واجب ہے، اور قربانی نہ کرنے کی وجہ سے وہ گنہگار ہوگا۔
اگر کوئی مسلمان سفر میں ہو یا فقیر وغریب ہو یا محتاج ہو اور قربانی کرے تو یہ مستحب ہے۔ جس طرح زکوٰة صاحب نصاب مسلمان پر الگ الگ لازم ہوتی ہے، اِسی طرح قربانی بھی ہر صاحب نصاب پر الگ الگ لازم ہوگی؛ چنانچہ ایک قربانی ایک گھرانے کی طرف سے کافی ہونے کا خیال دُرست نہیں ہے اور ہر مال دَار مقیم مسلمان شخص پر قربانی اس کے اپنے نفس اور ذَات پر وَاجب ہوتی ہے؛ اِس لیے پورے گھر، خاندان یا کنبے کی طرف سے ایک آدمی کی قربانی کافی نہیں ہوگی؛ بلکہ ہر صاحب نصاب پر الگ الگ قربانی لازم ہوگی، ورنہ سب لوگ گنہگار ہوں گے، ہاں مردوں کے اِیصالِ ثواب کے لیے ایک قربانی کئی افراد کے ثواب کی نیت سے کرسکتے ہیں۔
مردوں کے اِیصالِ ثواب کے لیے یا زندہ لوگوں کو ثواب پہنچانے کے لیے قربانی کرنا جائز ہے، اگر کسی آدمی نے قربانی کی نذر مانی یا فقیرنے قربانی کی نیت سے جانور خریدا تو اُن پر قربانی واجب ہے۔
وجوبِ قربانی کی شرائط
کسی شخص پر قربانی اُس وقت واجب ہوتی ہے، جب اس میں چھ شرائط پائی جائیں: اگر ان میں سے کوئی ایک شرط بھی نہ پائی جائے تو قربانی کا وجوب ساقط ہوجائے گا اور قربانی وَاجب نہ رہے گی۔
۱- عاقل ہونا، کسی پاگل، مجنون وَغیرہ پر قربانی وَاجب نہیں۔
۲- بالغ ہونا، نابالغ پر قربانی نہیں خواہ مال دَار ہی ہو، اگر کوئی ایامِ قربانی میں بالغ ہوا اور مال دار ہے تو اُس پر قربانی واجب ہے۔
۳- آزاد ہونا، غلام پر قربانی نہیں۔
۴- مقیم ہونا، مسافر پر قربانی وَاجب نہیں۔ ہاں! اگر مسافر مال دَار ہے اور قربانی کرتا ہے تو ا س کوقربانی کرنے کا ثواب ضرور ملے گا۔
۵- مسلمان ہونا، غیر مسلم پر (خواہ کسی مذہب کا ہو) قربانی واجب نہیں۔ ہاں اگر کوئی غیرمسلم ایامِ قربانی میں مسلمان ہوگیا اور وہ صاحبِ نصاب ہو تو اُس پر بھی قربانی واجب ہے۔
۶- صاحب نصاب ہونا، لہٰذا فقیر پر قربانی واجب نہیں؛ لیکن اگر فقیر اپنی خوشی سے قربانی کرے تو اسے ثواب ملے گا۔ اگر کسی آدمی کے پاس نصاب کی مقدار رقم موجود ہو؛ مگر اُس پر اِتنا قرض ہو جو اگر وہ ادَا کرے تو اس کو صاحب نصاب ہونے سے نکال دے، ایسے شخص پر قربانی واجب نہیں، خلاصہ یہ ہے کہ ہر عاقل، بالغ، آزاد، مقیم، مسلمان اور صاحب نصاب پر قربانی واجب ہے۔
قربانی کی فضیلت:
قربانی ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے ، اللہ تعالی نے اسے بعد والوں کے لئے بھی باقی رکھا، اللہ کا فرمان ہے : وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِي الْاٰخِرِيْنَ(الصافات:108)
ترجمہ:- اور ہم نے اس (چلن) کو بعد والوں کے لئے باقی رکھا۔
ذو الحجہ کے دس ایام اللہ کو بیحد عزیز ہیں ، ان ایام میں انجام دیا جانے والاہرنیک عمل اللہ کو پسند ہے ، ان میں ایک بہترین ومحبوب عمل قربانی بھی ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :أعظمُ الأيامِ عند اللهِ يومُ النَّحرِ ، ثم يومُ القُرِّ(صحيح الجامع:1064)
ترجمہ:- اللہ کے نزدیک سب سے عظیم دن یوم النحر(قربانی کا دن) اور یوم القر(منی میں حاجیوں کے ٹھہرنے کادن ) ہے ۔
ایک حدیث میں نبی ﷺ کا فرمان اس طرح ہے: أفضلُ أيامِ الدنيا أيامُ العشْرِ(صحيح الجامع:1133)
ترجمہ:- دنیا کے افضل دنوں میں ذوالحجہ کے ابتدائی دس دن افضل دن ہیں۔
اللہ تعالی نے دس راتوں کی قسم کھائی ہے ان میں سے ایک رات دس ذو الحجہ کی بھی ہے، اس سے بھی قربانی کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے ۔
قربانی کا وقت اور اس کے ایام :
قربانی کا وقت عید کی نماز کے فورابعد شروع ہوجاتا ہے ،خطبہ ختم ہونا ضروری نہیں اور یہ بھی ضروری نہیں کہ پہلے امام صاحب ہی قربانی دے ۔ براء بن عازب رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عید الاضحی کی نماز کے بعد خطبہ دیتے ہوئے فرمایا:
من صلى صلاتنا، ونسك نسكنا، فقد أصاب النُّسُكَ، ومن نسكَ قبلَ الصلاةِ، فإنه قبلَ الصلاةِ ولا نُسُكَ له.(صحيح البخاري:955)
ترجمہ:- جس شخص نے ہماری نماز کی سی نماز پڑھی اور ہماری قربانی کی طرح قربانی کی اس کی قربانی صحیح ہوئی لیکن جو شخص نماز سے پہلے قربانی کرے وہ نماز سے پہلے ہی گوشت کھاتا ہے مگر وہ قربانی نہیں۔
یہ حدیث بتلاتی ہے کہ عید کی نماز سے پہلے قربانی صحیح نہیں ہے لیکن عید کی نماز کے بعد قربانی کرنا صحیح ہے ۔
عید کی نماز کے بعد سے قربانی کا وقت شروع ہوکر 13 ذوالحجہ کے مغرب کا سورج ڈوبنے پر ختم ہوجاتا ہے یعنی قربانی کے چار دن کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ سے ثابت ہیں ۔ اس سلسلے میں بہت سارے دلائل ہیں ، حجت کے لئے ایک دلیل ہی کافی ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
كُلُّ عَرَفَةَ مَوْقِفٌ ، وارفعوا عن عُرَنَةَ ، وكُلُّ مزدلِفَةَ موقِفٌ ، وارفعوا عن بطنِ مُحَسِّرٍ ، وكلُّ فجاجِ مِنًى منحرٌ ، وكلُّ أيامِ التشريقِ ذبحٌ( صحيح الجامع:4537)
ترجمہ:- پورا عرفات وقوف کی جگہ ہے اور عرنہ سے ہٹ کر وقوف کرو اور پورا مزدلفہ وقوف کی جگہ ہے اور وادی محسر سے ہٹ کر وقوف کرو اور منیٰ کا ہر راستہ قربانی کی جگہ ہے اور تشریق کے تمام دن ذبح(قربانی) کرنے کے دن ہیں۔
ایام تشریق کہتے ہیں ،گیارہ، بارہ اور تیرہ ذوالحجہ ۔
ذبح کرنے کے آداب وطریقہ :
ذبح کرتے وقت جانور کوقبلہ رخ لٹایا جائے ، یہ سنت ہے۔ اگر غیرقبلہ پہ ذبح کرلیا گیا ہو تو بھی کوئی حرج نہیں ۔قربانی دینے والا خود سے ذبح کرے ، اگر ذبح کرنا اس کے لئے مشکل ہوتو کوئی بھی اس کی جگہ ذبح کردے۔ جب جانور ذبح کرنے لگیں تو چھری کو تیز کرلیں تاکہ جانور کو ذبح کی کم سے کم تکلیف محسوس ہو۔
زمین پر قبلہ رخ جانور لٹاکر تیزچھری اس کی گردن پہ چلاتے ہوئے بولیں بسم اللہ واللہ اکبر ۔ اتنا دعابھی کافی ہے اور نیت کا تعلق دل سے ہے ۔ یہ دعا بھی کرسکتے ہیں :
“بِاسْمِ اللهِ وَاللهُ أَكْبَرْ أَللهُمَّ هذا مِنْكَ وَلَكَ اَللھُم َّھذَا عَنِّيْ وَ عْن أهْلِ بَيْتِيْ “
مندرجہ ذیل دعا بهی پڑھنا سنت سے ثابت ہے .
“إنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَالسَّمَاْوَاتِ وَاْلأَرْضِ حَنِيْفًا وَمَاْأَنَاْمِنَ الْمُشْرِكِيْنَ، إِنَّ صَلاْتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَاْيَ وَمَمَاتِيْ لِلّهِ رَبِّ اْلعَاْلَمِيْنَ، لَاْشَرِيْكَ لَه’وَبِذالِكَ أُمِرْتُ وَأَنَاْ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ، بِاسْمِ اللهِ وَاللهُ أَكْبَرْ أَللهُمَّ هَذا مِنْكَ وَلَكَ أَللهُمَّ تَقَبَّلْ مِنِّيْ ( وَمِنْ أَهْلِ بَيْتِيْ)”
* اس حدیث کو شیخ البانی نے مشکوہ کی تخریج میں صحیح قرار دیا ہے اور شعیب ارناؤط نے اس کی تحسین کی ہے۔
ذبح کرنے میں چند باتیں ملحوظ رہے ۔ ذبح کرنے والا عاقل وبالغ مسلمان ہو،کسی خون بہانے والے آلہ سے ذبح کیا جائے،ذبح میں گلہ یعنی سانس کی نلی اور کھانے کی رگیں کاٹنی ہیں اور ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لینا ہے ۔
قربانی سے متعلق آخری چند ہدایت :
پہلی بات : قربانی کے وجوب کےلئے لوگوں میں جو زکوۃ کا نصاب مشہور ہے وہ ثابت نہیں ہے بس اتنی سی بات ہے کہ قربانی کا جانور خریدنے کی طاقت ہو۔
دوسری بات : قربانی کا جانور ذبح کرنے کی بجائے اس کی رقم صدقہ کرنا صحیح نہیں ہے ، نہ ہی اس کا گوشت یا اس کی کھال بیچی جائے گی البتہ ذاتی مصرف میں لاسکتے ہیں ،فقیرومسکین ہدیہ میں ملا گوشت بیچ سکتاہے۔ اجرت میں قصاب کو قربانی کا گوشت دینا جائز نہیں ،تحفہ میں کچھ دینا ممنوع نہیں ۔
تیسری بات : حج کی قربانی اور عید کی قربانی دونوں الگ الگ ہے اس لئے دونوں کا ایک سمجھنا غلط ہے ۔
چوتھی بات : قربانی کو صحیح ہونے کے لئے اخلاص کے ساتھ مزید پانچ شرائط ہیں : (1) منصوص جنس میں سے ہو،(2) مسنہ(دانتا ہو)، (3) اپنی ملکیت ہو،(4)حدیث میں بیان کردہ چار عیوب سے پاک ہو،(5) قربانی کے جائز اوقات میں قربانی دی گئی ہو۔
پانچویں بات : قربانی کے جانور سے متعلق مختلف بدعات وخرافات ہیں۔ الگ الگ علاقہ میں الگ قسم کی بدعات رائج ہیں ،کہیں جانور کو سجانا، کہیں جانور کی نمائش کرانا (اور یہ شہروگاؤں ہرجگہ عام ہورہاہے)بلکہ ٹی وی اور اخبار پر اس کی خبریں شائع کرنا، ذبح کے وقت جانورکو وضو وغسل کرانا، اس کے خون کو متبرک سمجھ کر گھروں ،سواریوں اور بچوں کے جسموں پر لیپنا یا اسی جانور کے بالوں اور پیشانی پر ملناوغیرہ ۔ اس قسم کے کاموں کو ثواب کی نیت سے کرنا گناہ کا باعث ہے کیونکہ جو دین نہیں اسے دین بنالینا بدعت ہے اور ہربدعت گمراہی ہے اور ہرگمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے ۔