گٹکے کے باعث سالانہ 10 ہزار سے زائد افراد کے کینسر میں مبتلا ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ سندھ ہائیکورٹ نے ریمارکس دیے کہ یہ بھی تو دہشت گردی ہے جو انسانوں کی جان لے رہا ہے۔ گٹکے کی تیاری اور فروخت میں پولیس اور اسمبلی میں بیٹھے لوگ بھی ملوث ہیں، ان کی ملی بھگت کے بغیر گٹکا فروخت نہیں ہو سکتا۔
سندھ ہائی کورٹ میں گٹکا بنانے اور فروخت کرنے والوں کے خلاف کارروائی سے متعلق درخواست پر سماعت ہوئی جس میں سیکریٹری قانون اور دیگر شخصیات پیش ہوئیں۔
دوران سماعت ڈاکٹر نے انکشاف کیا کہ صرف جناح اسپتال میں سالانہ منہ کے کینسر کے 10 ہزار مریض آ رہے ہیں۔
سیکریٹری قانون نے عدالت کو بتایا کہ قانون سازی کے لیے بل کمیٹی کے سپرد کر دیا ہے، امید ہے ایک ہفتے میں بل منظور ہو جائے گا۔
جسٹس صلاح الدین نے ریمارکس دیئے کہ آپ سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنا چاہتے ہیں؟ 15 روپے کا گٹکا خریدنے والا اور بنانے والا برابر کیسے ہو سکتا ہے؟
عدالت نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کروڑوں روپے کمانے والے مینوفیکچررز کے لیے بھی تین سال کی سزا؟ گٹکا بنانے والوں کے لیے کم از کم عمر قید کی سزا ہونی چاہیے۔
جج نے دوران سماعت کہا کہ آپ لوگ کیا چاہتے ہیں یہاں وزیر کو یا وزیر اعلیٰ کو بلایا جائے؟ اگر ضرورت پڑی تو وزیر اعلیٰ کو بھی بلائیں گے۔
عدالت نے کہا کہ ایک اسپتال میں منہ کے کینسر کی اتنی بڑی تعداد حیران کن ہے، کیا یہ جنگی حالات نہیں؟
جسٹس صلاح الدین پنہور نے ریمارکس دیئے کہ یہ بھی تو دہشت گردی ہے جو انسانوں کی جان لے رہا ہے، کیا حکومت چاہتی ہے ساری قوم کینسر کی مریض بن جائے؟
انہوں نے کہا کہ گٹکے کی تیاری اور فروخت میں پولیس اور اسمبلی میں بیٹھے لوگ بھی ملوث ہیں، ان کی ملی بھگت کے بغیر گٹکا فروخت نہیں ہو سکتا۔
سندھ ہائی کورٹ نے کہا کہ بڑے بڑے لوگ جو اسمبلیوں میں آتے ہیں وہ بھی اس کے ذمہ دار ہیں، پولیس کو معلوم ہوتا ہے کہ گٹکا کون اور کہاں بنا رہا ہے؟
ایڈیشنل آئی جی لیگل برانچ نے عدالت کو بتایا کہ آپ کے حکم کے بعد پانچ دنوں میں 11 مقدمات درج ہوئے ہیں، جس پر عدالت نے استفسار کیا کہ کتنے ایس ایس پیز کے خلاف کارروائی ہوئی؟ جب تک ان افسران کے خلاف کارروائی نہیں ہو گی معاملات ٹھیک نہیں ہو سکتے۔
سندھ ہائی کورٹ نے استفسار کیا کہ گٹکا بنانے والوں کے خلاف کارروائی نہیں ہوتی، آئی جی کو کتنا شیئر ملتا ہے؟ اگر آئی جی کو شیئر نہیں ملتا تو کارروائی کیوں نہیں کرتے؟
عدالت نے مزید کہا کہ ایس ایس پیز کے اثاثوں کی تحقیقات کرائیں سب پتا چل جائے گا، ابھی معاملہ نیب اور ایف آئی اے کو بھیجتے ہیں، پولیس افسران کے اثاثوں کی چھان بین ہونی چاہیے۔
جسٹس صلاح الدین نے ریمارکس دیئے کہ جاگیرداروں کو بدنام کرتے ہیں، اقتدار میں بیٹھے لوگوں کی ذہنیت بھی وہی ہے، پولیس لکھ کر دے کہ گٹکا فروشی میں دوسری قوتیں بھی ملوث ہیں۔
سندھ ہائی کورٹ نے گٹکا بنانے اور فروخت کرنے والوں کے خلاف بھرپور کریک ڈاون کا حکم دیتے ہوئے کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا۔