اسلام آباد: سپریم کورٹ نے آڈیو لیکس کمیشن کیس میں پی ڈی ایم کی سابقہ حکومت کے عدالتی بینچ پر اعتراضات مسترد کردیے۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی خوش دامن، خواجہ طارق رحیم کی اہلیہ، سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے بیٹے جسٹس مظاہر نقوی، عابد زبیری اور پرویز الٰہی کی مبینہ آڈیو لیکس پر حکومت نے ایک انکوائری کمیشن تشکیل دیا تھا۔
حکومت نے 9 مبینہ آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لیے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں یہ انکوائری کمیشن تشکیل دیا تھا جس میں اسلام آباد اور بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس شامل تھے تاہم عابد زبیری نے اس کمیشن کو چیلنج کیا تھا جس پر عدالت نے چیف جسٹس کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ تشکیل تھا، اس بینچ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس حسن اظہر اور جسٹس شاہد وحید شامل تھے۔
عدالتی بینچ نے اس کیس کی دو سماعتیں کیں اور آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کو کام کرنے سے روک دیا تھا۔
تاہم سابقہ حکومت نے مفادات کے ٹکراؤ پر تین ججزکی بینچ سےعلیحدگی کے لیے متفرق درخواست دائرکی تھی، حکومت کی جانب سے بینچ میں شامل جن تین ججوں پر اعتراض اٹھایا گیا ان میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر شامل تھے۔
عدالت نے حکومت کی جانب سے بینچ پر اعتراض کی درخواست پر سماعت کے بعد 6 جون کو فیصلہ محفوظ کیا تھا جو تین ماہ بعد آج جمعہ کو جسٹس اعجاز الاحسن نے سنایا۔
سپریم کورٹ نے تین ججز پر حکومتی اعتراض کی متفرق درخواست خارج کردی اور عدالت نے مختصر فیصلہ سناتے ہوئے سابقہ حکومت کے بینچ پر اعتراضات کو عدلیہ کی آزادی پر حملہ قرار دیا۔
جسٹس اعجاز نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ججز پر اعتراض عدالت پر حملے کے مترادف ہے۔
سپریم کورٹ اس کیس کا تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کرے گی۔