حکومت نے اپوزیشن کو یقین دہانی تو کروادی لیکن آئی ایم ایف نے انکار کرکے بڑی مشکل کھڑی کردی ہے۔
آئی ایم ایف نے مجوزہ فنانس بل 2024-25 کے بیشتر آئٹمز پر رعایت دینے سے انکار کر دیا ہے اور تاحال صرف ٹیکسٹ بکس پر جی ایس ٹی کے خاتمے اور پروفیسرز و ریسرچرز کے ریبیٹ کی بحالی اور سیمنٹ پر وفاقی ایکسائز ڈیوٹی کی واپسی اور دیگر تکنیکی تبدیلیوں پر اتفاق کیا ہے تاہم اسٹیشنری کے دیگر آئٹمز پنسلوں، شاپنرز اور دیگر اسٹیشنری پر 18 فیصد ٹیکس لگے گا۔
رپورٹ کے مطابق حکومت برآمد کنندگان کو بھی خوش نہیں کر پائے گی، فاٹا اور پاٹا میں 6 فیصد ٹیکس ختم کرنیکی تجویز کی بھی آئی ایم ایف نے مخالفت کی ہے۔سیمنٹ پر وفاقی ایکسائز ڈیوٹی میں تخفیف کے متبادل آپشنز کے طور پر حکومت نے بیرون ملک جانے کےلیے ہوائی جہازوں کے ٹکٹس پر ایف ای ڈی بڑھانے حتیٰ کہ اس کی شرح دگنا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
آئی ایم ایف نے تاحال حکومت کی جانب سے ایکسپورٹس پر متعین انکم ٹیکس کا نظام بحال کرنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے۔ برآمد کنندگان معمول کے ٹیکس نظام میں جانے کے خلاف بڑی سخت لابنگ کر رہے ہیں۔
حکومت نے برآمد کنندگان پر متعین ٹیکس نظام کی بحالی تجویز آگے بڑھاتے ہوئے اسے ایک سے دو یا تین فیصد تک بڑھانے کا کہا ہے تاکہ آئی ایم ایف سے آمادگی حاصل کی جا سکے تاہم آئی ایم ایف نے تاحال اس کی اجازت دینے سے انکار کیا ہے۔
حکومت فنانس بل کی تیاری کےلیے مکمل تیار ہے جو کہ اب قومی اسمبلی کے جاری ہفتے کے دوران پیش کیاجائےگا، اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ حکومت 250 ارب روپے کے مالیاتی خلا کو کیسے ایڈجسٹ کرے گی جو کہ پی ایس ڈی پی میں تخلیق کیا گیا ہے جہاں پی ایس ڈی پی کو 1400 ارب روپے سے گھٹا کر 1150 ارب روپے کر دیا گیا ہے۔ کیایہ کشن ملنے سے ٹیکس کی شرحوں میں تخفیف ہو سکے گی۔آئی ایم ایف حکومت کو ایسانہیں کر نے دے رہا اور ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ حکومت آئی ایم ایف سے کیسے ڈیل کر تی ہے۔
پاکستان اور آئی ایم ایف نے ورچوئل مذاکرات گزشتہ کئی دن سے جاری رکھے ہوئے ہیں اور حکومت نے آئی ایم ایف سے کہا تھاکہ اسٹیشنری آئٹمز پر جی ایس ٹی ہٹانے کی اجازت دی جائے،اس پر آئی ایم ایف ٹیکسٹ بکس کی حدتک تو جنرل سیلز ٹیکس ہٹانے پر رضامند ہوگیا ہے لیکن دیگر تمام آئٹمز جیسے کہ پنسلیں، شاپنر، مشق کی کابیاں اور دیگر چیزوں پر 18 فیصد جی ایس ٹی برقرار رکھنے پر مصر ہے۔