سینٹ سے آرٹیکل 186 اے میں ترمیم بھی منظور کر لی گئی، جس کے تحت ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے کی فیس 50 ہزار روپے سے بڑھا کر 10 لاکھ روپے کر دی گئی۔
آئین کے آرٹیکل 187 میں ترمیم کے تحت سپریم کورٹ کے زیر اختیار اور استعمال کردہ دائرہ اختیار کی پیروی کے علاوہ کوئی حکم منظور نہیں کیا جائے گا۔
آئینی ترمیم میں کہا گیا ہے کہ سپریم جوڈیشل کمیشن کو ہائیکورٹ کے ججوں کی سالانہ بنیادوں پر کارگردگی کا جائزہ لینے کا اختیار ہو گا۔
ہائیکورٹ میں جج کی تقرری غیر تسلی بخش ہونے پر کمیشن جج کو کارگردگی بہتر بنانے کے لیے ٹائم فریم دے گا اور ٹائم فریم میں جج کی کارگردگی دوبارہ غیر تسلی بخش ہونے پر رپورٹ سپریم جوڈیشل کونسل کو بھجوائی جائے گی۔
آرٹیکل 177 میں ترمیم کے تحت دوہری شہریت کا حامل کوئی بھی شخص سپریم کورٹ کا جج نہیں بن سکے گا، سپریم کورٹ کا جج بننے کے لیے ہائیکورٹ میں بطور جج 5 سال کام کرنے کی حد مقرر ہو گی۔