یوکرین-روس تنازع میں امریکی پالیسی میں ایک اہم تبدیلی لاتے ہوئے صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے یوکرین کو روسی سرزمین پر حملہ کرنے کے لیے امریکی ہتھیار استعمال کرنے کی اجازت دے دی۔
رپورٹ کے مطابق امریکی انتظامیہ نے ان پابندیوں کو ختم کر دیا ہے جنہوں نے یوکرین کو روس کی سرزمین پر حملہ کرنے کے لیے امریکی فراہم کردہ ہتھیاروں کے استعمال سے روک دیا تھا۔
ذرائع نے آپریشنل سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے تفصیلات ظاہر کیے بغیر کہا کہ ’آنے والے دنوں میں یوکرین، روس میں طویل فاصلے تک حملے کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔‘ وائٹ ہاؤس نے معاملے پر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔
امریکا کا یہ اقدام، جو 20 جنوری 2025 کو نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے سے محض دو ماہ قبل سامنے آیا ہے، یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کی جانب سے کئی مہینوں کی درخواستوں کے بعد سامنے آیا ہے کہ یوکرین کی فوج کو اس کی سرحد سے دور روسی فوجی اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے امریکی ہتھیاروں کے استعمال کی اجازت دی جائے۔
یہ تبدیلی روس کی جانب سے اپنی فوج کی مدد کے لیے شمالی کوریا کے زمینی دستوں کی تعیناتی کے بعد ہوئی ہے، یہ ایک ایسی پیشرفت ہے جس نے واشنگٹن اور کیف میں خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔
ذرائع کے مطابق روسی سرزمین میں طویل فاصلے تک مار کرنے والے ATACMS راکٹوں کے ذریعے حملے کیے جانے کا امکان ہے، جن کی رینج 190 میل (306 کلومیٹر) تک ہے۔
اگرچہ کچھ امریکی حکام نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ طویل فاصلے تک حملوں کی اجازت دینے سے جنگ کی مجموعی نوعیت تبدیل ہو جائے گی، لیکن یہ فیصلہ یوکرین کو ایسے وقت میں مدد دے سکتا ہے جب روسی افواج کامیابی حاصل کر رہی ہیں اور جب جنگ بندی کے لیے بات ہوتی ہے تو ممکنہ طور پر کیف کو مذاکرات کی بہتر پوزیشن میں لاسکتا ہے۔
یہ واضح نہیں ہے کہ آیا ڈونلڈ ٹرمپ اقتدار سنبھالنے پر جو بائیڈن کے فیصلے کو واپس لے لیں گے۔ وہ طویل عرصے سے یوکرین کے لیے امریکی مالی اور فوجی امداد کے پیمانے پر تنقید کرتے آرہے ہیں اور جنگ کو جلد ختم کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے، لیکن یہ نہیں بتایا کہ یہ کیسے ممکن ہوگا۔
روس نے متنبہ کیا ہے کہ وہ یوکرین کی جانب سے امریکی ہتھیاروں کے استعمال پر پابندیوں میں نرمی کے اقدام کو تنازع کو ہوا دینے کے طور پر دیکھے گا۔