وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر سے کرفیو ہٹائے جانے تک بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں۔
نیویارک میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ہم نہیں جانتے کہ کرفیو اٹھنے کے بعد کیا ہوگا، لیکن قتل عام کا خدشہ ہے۔ 80 لاکھ لوگ کشمیر میں محصور ہیں، اس سے بڑی اور ریاستی دہشتگردی کیا ہوگی۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ بھارت میں اس وقت ہندوانتہا پسندوں کی حکومت ہے، افسوس کی بات ہے کہ بھارت انتہا پسندوں کے قبضے میں ہے، وزیراعظم مودی ہندووتوا نظریے کا لائف ٹائم ممبر ہے، یہ وہی مودی ہے جس کے دور وزارت اعلیٰ میں گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام ہوا۔ وزیراعظم نے کہا کہ یہ وقت ہے کہ دنیا کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے۔ کیوبا بحران کے بعد پہلی بار دو ایٹمی طاقتیں پاکستان اور بھارت آمنے سامنے ہیں۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اوآئی سی میٹنگ میں کشمیری مسلمانوں کا مقدمہ رکھوں گا، سوویت یونین والوں کیخلاف لڑنے والوں کو مجاہدین کہا گیا، ان ہی مجاہدوں کو امریکی اور یورپی ممالک نے فنڈنگ اور تربیت فراہم کی، یہ ہی مجاہدین جب امریکا کیخلاف لڑے تو انہیں دہشت گرد کہا گیا۔ایک سوال کے جواب میں عمران خان کا کہنا تھا اگر کشمیر پر کچھ کرنا ہے تو سیکیورٹی کونسل کے لیے یہ مناسب وقت ہے کیوں کہ دو ایٹمی طاقتیں آمنے سامنے ہیں۔
پاکستانی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ وہ عالمی برادری سے مایوس ہیں کیوں کہ اگر یورپ کے کسی ملک میں ایسا ہوتا تو کیا ایسا رد عمل دیا جاتا؟ ان کا کہنا تھا اگر آٹھ یہودیوں کیساتھ بھی ایسا ہوتا تو آپ دنیا کا رد عمل دیکھتے، لیکن کشمیر میں مسلمان ہے۔
اپنی پریس کانفرنس میں وزیراعظم عمران خان نے پڑوسی ملک افغانستان سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان امن معاہدہ نہ ہونا پاکستان اور دیگر ملکوں کیلئے نقصان دہ ہے، واضح کردوں کہ افغانستان کا کوئی فوجی حل نہیں، ایک موقع پر طالبان قیادت مجھ سے ملنا چاہتی تھی، طالبان سے ملاقات سے پہلے افغان ڈیل کے انتظار میں تھا۔
کیا ترکی مسئلہ کشمیر پر پاکستان کی مدد کرسکتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ عالمی رہنماؤں کو چاہیے کہ کم سے کم بھارت کو کرفیو ہٹانے کا کہیں۔
جس کے جواب میں وزیراعظم کا کہنا تھا کہ جنرل اسمبلی سے خطاب میں کشمیر کا ذکر کرنے پر ترک صدر کا مشکور ہوں، ترک صدر کا اصولی موقف اپنانے پر شکریہ ادا کرتے ہیں، ترکی کے ساتھ بہت اچھے تعلقات ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایران کے مسئلے پر مزید بات نہیں کرسکتا۔ ٹرمپ سے ملاقات کے بعد میں نے فوری طور پر صدر روحانی سے ملاقات کی۔
واضح رہے کہ وزیراعظم عمران خان 27 ستمبر کو جنرل اسمبلی سے خطاب کریں گے اور کشمیر کا معاملہ پوری دنیا کے سامنے رکھیں گے۔