ایران کے سپریم لیڈر علی خامنہ ای کا کہنا ہے کہ ایران نے خطے میں کوئی ‘پراکسی’ بنا رکھی ہے اور نہ ہی ایران کو کسی ‘پراکسی’ کی ضرورت ہے۔ خامنہ ای نے اس امر کا اظہار اتوار کے روز ملاقات کے لیے آنے والے وفود سے گفتگو کے دوران کیا ہے۔
انہوں نے اس تاثر کی تردید کی ہے کہ علاقے میں ایرانی ‘پراکسیز’ لڑ رہی ہیں۔ انہوں نے کہا اگر کوئی ملک اپنے لیے یہ راستہ لیتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ ایرانی ‘پراکسی’ کے طور پر کام کرتا ہے۔
ایرانی سپریم لیڈر کے یہ خیالات غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی جنگ کے ساڑھے چودہ ماہ گذرنے کے بعد اس وقت سامنے آئے ہیں جب ایرانی حمایت یافتہ لبنانی حزب اللہ نے تقریبا ساڑھے تیرہ ماہ تک غزہ کے فلسطینیوں اور حماس کی مدد حمایت کے لیے اسرائیل کے ساتھ پہلے لبنانی سرحد پر اور بعد ازاں اسرائیل کی زمینی جنگ کا لبنان کے اندر مقابلہ اور سامنا کیا، اسی دوران حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ سمیت اس کے دوسرے اہم کمانڈر اسرائیلی بمباری میں ہلاک ہو گئے۔
حماس غزہ میں ابھی تک اسرائیلی جنگ کا سامنا کر رہی ہے جبکہ اس کے دو سربراہان سمیت چوٹی کے رہنما اسرائیلی بمباری میں جاں بحق ہو گئے ہیں۔ دوسری جانب شام میں ایرانی اتحادی بشارالاسد کی حکومت کا بھی خاتمہ ہو گیا ہے۔ جبکہ یمنی حوثی بھی اسی طرح امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے نشانے پر ہیں کہ وہ بھی غزہ کے فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کا اعلان کرکے بحیرہ احمر میں کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ایرانی سپریم لیڈر نے کہا ‘اسلامی جمہوریہ ایران کی کوئی ‘پراکسی فورس’ نہیں ہے۔ یمن اپنے ایمان کی وجہ سے لڑتا ہے، حزب اللہ کی جنگ بھی ایمان اور عقیدے کی طاقت کی بنیاد پر ہے۔ جہاں تک حماس اور اسلامی جہاد گروپ کا تعلق ہے وہ بھی اپنے عقیدے اور ایمان کے تقاضے کے طور پر لڑتے ہیں۔ ان کا عقیدہ ہی انہیں جہاد پر مجبور کرتا ہے۔ وہ ہماری ‘پراکسی’ کے طور پر کام نہیں کرتے۔’
امریکہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا ‘امریکی کہتے ہیں کہ ایران اپنی ‘پراکسیز’ سے علاقے میں محروم ہو گیا ہے۔ یہ ان کی ایک اور غلطی ہے۔ انہیں خبر رہے ‘جس روز ایران نے کوئی قدم اٹھانا چاہا تو ہم کسی ‘پراکسی’ کے محتاج نہ ہوں گے۔’