آج ملک بھر میں شاعر مشرق حکیم الامت ڈاکٹرعلامہ محمد اقبال کا 140 واں یوم ولادت نہایت عقیدت و احترام سے منایا جارہا ہے۔
9 نومبر 1877 کو سیالکوٹ میں پیدا ہونے والے ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کا شمار برصغیر پاک و ہند کی تاریخ ساز شخصیات میں ہوتا ہے۔ اقبال پہلے وہ مفکرِ عظیم ہیں جنھوں نے سب سے پہلے یہ محسوس کر لیا تھا کہ برصغیر پاک و ہند میں اب مسلمان اور ہندو اکٹھے نہیں رہ سکتے۔
آپ نے 1899ء میں انہوں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے فلسفے میں ایم اے کا امتحان پاس کیا اور پھر تدریس کے شعبے سے وابستہ ہوئے۔ 1905ء میں وہ یورپ چلے گئے جہاں انہوں نے کیمبرج یونیورسٹی سے بیرسٹری کا امتحان پاس کیا اور میونخ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
وطن واپسی کے بعد آپ وکالت کے پیشے سے کل وقتی طور پر وابستہ ہوئے،علامہ اقبال کی شاعری کا آغاززمانہ طالب علمی ہی سے ہوچکا تھا۔ ابتدا میں انہوں نے داغ دہلوی سے اصلاح لی۔
علامہ اقبال نے تمام عمر مسلمانوں میں بیداری و احساسِ ذمہ داری پیدا کرنے کی کوششیں جاری رکھیں مگر بدقسمتی سے وہ پاکستان کی صورت میں اپنے خواب کو حقیقت کے روپ میں ڈھلتا نہ دیکھ سکے اور 21 اپریل 1938 کو خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ انہیں لاہور میں سپرد خاک کیا گیا۔ ان کی خدمات کے اعتراف میں ناصرف پاکستان بلکہ دیگر کئی اسلامی ممالک میں ان کے نام سے شاہرات موسوم کی گئی ہیں۔
علامہ اقبال کے شعری مجموعوں میں بانگ درا، ضرب کلیم، بال جبرئیل، اسرار خودی، رموز بے خودی، پیام مشرق، زبور عجم، جاوید نامہ، پس چے چہ باید کرد اے اقوام شرق اور ارمغان حجاز کے نام شامل ہیں۔
شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کے یوم ولادت کے موقع پر ملک بھر میں خصوصی تقاریب کا اہتمام کیا جارہا ہے۔ اس حوالے سے سب اے اہم تقریب مزار اقبال پر گارڈز کی تبدیلی تھی۔ پاک بحریہ کےکیڈٹس اور جوانوں نے پنجاب رینجرز کے جوانوں کی جگہ مزار اقبال پر اعزازی گارڈز کے فرائض سنبھالے۔
علامہ ڈاکٹر محمد اقبال محض ایک فلسفی شاعر ہی نہیں بلکہ انسان کے انسان کے ہاتھوں استحصال کے بھی خلاف تھے۔ وہ چاہتے تھے انسان بلا تمیز رنگ و نسل اور مذہب ایک دوسرے کے ساتھ اچھا رویہ روا رکھیں اور باہمی احترام و انسیت سے وابستہ رہیں کہ یہی منشا رب کائنات ہے۔پاکستانی کی نئی نسل بھی اقبال کی احترام آدمیت کی سوچ کو سراہتی ہے۔علامہ ایک طرف امت مرحوم کا نوحہ کہتے ہیں تو دوسری طرف وہ مسلم نوجوان کو ستاروں پر کمندڈالنے کی ترغیب دیتے نظر آتے ہیں۔ اقبال قوم کو خانقاہوں سے نکل کر میدان عمل میں اترنے پر ابھارتے ہیں وہ اسلامی دنیا میں روحانی جمہوریت کا نظام رائج کرنے کے داعی تھے۔