اسلام آباد سپریم کورٹ آف پاکستان نے طویل سماعت کے بعد پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستیں مسترد کرتے ہوئے اسے قانونی قرار دینے کا فیصلہ سنا دیا۔
سماعت کی براہ راست نشریات میں چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے محفوظ فیصلہ پڑھ کر سنایا۔ انہوں نے بتایا کہ فیصلہ 10/5 سے ہے، 5 کی نسبت 10 کے اکثریتی فیصلے سے ایکٹ کو برقرار رکھا جاتا ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کا تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا، فل کورٹ نے ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر 5 سماعتیں کی ہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظاہر نقوی، جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس شاہد وحید کی جانب سے اختلافی نوٹ لکھا گیا۔
آرٹیکل 183 اے کے مقدمات میں اپیل کا حق برقرار رہے گا۔ آرٹیکل 183 اے کے معاملات پر فیصلہ 9/6 کی تناسب سے دیا گیا۔
قبل ازیں سپریم کورٹ کے فل کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کیس کی سماعت کی اور دلائل مکمل ہونے کے بعد اس کا فیصلہ محفوظ کیا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ آپس میں مشاورت کریں گے، اتفاق رائے ہوا تو آج ہی فیصلہ سنائیں گے ورن فیصلہ محفوظ سمجھیں بعد میں سنایا جائے گا۔ بعد ازاں بتایا گیا کہ فیصلہ ساڑھے 5 بجے سنایا جائے گا۔
اس سے قبل سماعت میں اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نےعدالت کو بتایا کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کی وجہ سے ملک چھ سو ارب روپے سے زائد کا نقصان ہو چکا ہے، جس پر جسٹس شاہد وحید نے ریمارکس دیے آپ ہمیں چارج شیٹ کرنا چاہتے ہیں سپریم کورٹ نے جن کیسز میں قابلیت نہیں تھی ان پر قانون بنا دیا، آپ اب اس کو قانونی شکل دے دیں۔
قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہمیں تنقید سننے کا حوصلہ رکھنا چاہیے، آپ کو چارج شیٹ کا لفظ نہیں کہنا چاہیے تھا، یہ صرف کیس کی حقیقت بتا رہے ہیں، ایک سو چوراسی تین میں کچھ اچھے کام بھی ہوئے ہوں گے، ہو سکتا ہے زیادہ اچھے کام نہ ہو سکے ہیں، ایک سو چوراسی تین میں اپیل کا حق دیا گیا ہے
دوران سماعت جسٹس منیب اختر نے سوال اٹھایا کوئی بھی عدالت انتظامی سطح پر قانونی حق ختم نہیں کر سکتی، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ مفروضوں سے نکل کر بات کریں تو جسٹس منیب نے جواب دیا میرا سوال مفروضے پر نہیں مستقبل کیلیے حقیقت پر ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ تسلیم کرنا چاہتا ہوں فل کورٹ بنانا میری غلطی تھی، جب آٹھ رکنی بینچ بنا تھا تب بھی اپیل کا یہی سوال اٹھنا تھا، کسی جج نے فل کورٹ پر اعتراض کیا نہ آٹھ رکنی بنچ پر۔
پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کے دوران چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریمارکس دیے اگر پارلیمان چاہتی تو ایک قدم آگے جاسکتی تھی، پارلیمان نے قدم شاید اس لیے نہیں اٹھایا کیونکہ اُسے ہم پر اعتبار ہے، پارلیمان نے سپریم کورٹ کی عزت کی اور رکھی، پارلیمان ہماری دشمن نہیں، یقیناً وہ بھی ہمیں دشمن نہیں سمجھتی۔
جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کا کہنا تھا کہ ایک ادارے کو دوسرے ادارے سے لڑانے کی کوشش نہ کریں، ہماری مرضی جب وقت آئے گا تو انٹر پٹیشن کرلیں گے، 40 سال سے قانون سے وابستگی ہے، تھوڑی بہت عقل آگئی ہے، آئین پر جو حملہ ہوا، آپ صرف اُس پر فوکس رکھیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ نے 1973 کے بعد سے 232 ازخود نوٹس لیے، سپریم کورٹ نے اسٹیل مل نجکاری کالعدم قرار دینے کے بعد کرپشن پر ازخود نوٹس لیا، ازخودنوٹس لیا تو اسٹیل ملز منافع میں تھی، سوموٹو سے آج تک اسٹیل ملز 206 اب کا نقصان کر چکی ہے، جس پر جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ اس کارروائی کو سپریم کورٹ کے خلاف چارج شیٹ نہیں بنایا جا سکتا۔
جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ اسٹیل مل کیس کا موجودہ کیس سے کیا تعلق ہے؟ جبکہ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ کیا قانون سازی کے وقت پارلیمان میں یہ بحث ہوئی تھی؟ ابھی تک پارلیمان میں بحث کا ریکارڈ فراہم نہیں کیا گیا۔