سندھ ہائیکورٹ نے ریمارکس دیے معلوم کیا جائے کہ لاپتا شہریوں کو آسمان کھا گیا، زمین نگل گئی یا وہ قبر میں چلے گئے؟۔
سندھ ہائیکورٹ میں 100 سے زائد لاپتا افرادکی بازیابی سے متعلق درخواستوں کی سماعت ہوئی۔ جسٹس نعمت اللہ پھلپھوٹو نے کہا کہ لاپتا افرادکی گمشدگی کو کئی سال گزرنے کے باوجود پولیس سراغ تک نہیں لگا سکی، تفتیشی افسران پولیس میں ملازمت کے قابل ہی نہیں ہیں، اہلخانہ روتے پھر رہے ہیں عدالتوں میں بددعائیں دیتے ہیں، لاپتا شہریوں کو آسمان کھا گیا، زمین نگل گئی یا وہ قبر میں چلے گئے؟ کچھ معلوم کرو.
ایف آئی اے نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ جن لاپتا شہریوں کے شناختی کارڈز نہیں ہیں ان کی ٹریول ہسٹری (سفری ریکارڈ) نہیں مل سکتا۔ ہائی کورٹ نے ڈائریکٹر ایف آئی اے کو طلب کرتے ہوئے ایڈیشنل آئی جی کراچی کو حکم دیا کہ لاپتا شہری عبدالقادر کے کیس کی تفتیش کے لیے ایس پی سطح کا افسر مقرر کیا جائے۔
جسٹس نعمت اللہ نے کہا کہ ہماری نظر میں صوبائی ٹاسک فورس ناکام ادارہ ہے، کئی کئی جے آئی ٹیز ہوجاتی ہیں یہ تک پتا نہیں چلتا شہری لاپتا کیوں اور کیسے ہورہے ہیں، پولیس افسران بس فائلیں لے کر گھومتے رہتے ہیں، ایسے اہلکاروں کو تو پولیس میں ہونا ہی نہیں چاہیے، سیکرٹری داخلہ سندھ کو لکھتے ہیں وہ پورا دن عدالت میں آکر بیٹھیں اور اپنی پولیس کا حال دیکھے۔
عدالت نے آئی جی جیل خانہ جات کو لاپتا شہریوں سے متعلق قیدیوں کا ریکارڈ تفتیشی افسران کو فراہم کرنے کا حکم دیتے ہوئے محکمہ داخلہ، پولیس اور دیگر سے 25 اپریل کو پیش رفت رپورٹ طلب کرلی۔