15 اگست 2021 کو طالبان افغانستان کے دارالحکومت کابل میں داخل ہوئے جس کے بعد صدر اشرف غنی ملک سے فرار ہوگئے اور افغان حکومت غیر فعال ہوگئی۔
طالبان نے پنجشیر کے سوا ملک بھر میں اپنا کنٹرول قائم کرلیا ہے جس کے بعد سے دنیا کو طالبان کی نئی حکومت کے اعلان کا انتظار ہے تاہم طالبان نے واضح کردیا تھا کہ جب تک امریکا اپنا انخلا مکمل نہیں کرتا نہ ہی حکومت کا اعلان کیا جائے گا نہ کابینہ کا۔
طالبان نے امریکی انخلا کے لیے 31 اگست تک کی ڈیڈ لائن دی تھی تاہم امریکا ایک روز قبل 30 اگست کی شب ہی اپنے تمام فوجیوں کو افغانستان سے نکال کر لے گیا اور گذشتہ روز امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنے خطاب میں افغان جنگ کے خاتمے کا باضابطہ اعلان بھی کردیا۔
امریکی انخلا مکمل ہونے کے بعد اب طالبان نے حکومت سازی کے لیے مشاورت تقریباً مکمل کرلی ہے اور کسی بھی وقت ان کی جانب سے حکومت کا اعلان کیا جاسکتا ہے۔
افغان نشریاتی ادارے طلوع نیوز نے طالبان رہنما کے حوالے سے اپنی خبر میں دعویٰ کیا ہے کہ نئی حکومت کے قیام سے متعلق طالبان کی اعلیٰ قیادت کی مشاورت مکمل ہوگئی ہے اور جلد اس کا باضابطہ اعلان کردیا جائے گا۔
طلوع کے مطابق طالبان کا کہنا ہے کہ نئے نظام میں ہیبت اللہ سربراہ ہوں گے جن کے ماتحت صدر یا وزیراعظم ہوگا جو ملک چلائے گا۔
طالبان کے ثقافتی کمیشن کے رکن انعام اللہ سمنگانی نے طلوع نیوز کو بتایا کہ ’طالبان کے رہنما ملا ہیبت اللہ اخوند زادہ نئی حکومت کے بھی سربراہ ہوں گے، نئی حکومت سے متعلق مشاورت مکمل ہوگئی ہے، کابینہ کے ارکان سے متعلق بھی ضروری بات چیت کی جاچکی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہم جس اسلامی حکومت کا اعلان کریں گے وہ لوگوں کیلئے ایک ماڈل ہوگی، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہیبت اللہ اخوندزادہ حکومت کا حصہ ہوں گے، وہ نئی افغان حکومت کے سربراہ ہوں گے اس میں کوئی دو رائے نہیں۔‘
طلوع نیوز نے غیر مصدقہ اطلاعات کی بنیاد پر رپورٹ کیا کہ طالبان کی نئی حکومت میں وزیراعظم کا عہدہ بھی موجود ہوگا جو ہیبت اللہ کے ماتحت کام کرے گا۔
سیاسی تجزیہ نگار محمد حسن حقیار کا کہنا ہے کہ ’نئے نظام کا نام نہ جمہوریہ ہونا چاہیے نہ خلافت بلکہ یہ اسلامی حکومت کی طرح کا ہونا چاہیے۔ ہیبت اللہ کو حکومت کا سربراہ ہونا چاہیے البتہ وہ صدر کے عہدے پر فائز نہیں ہوں گے بلکہ وہ افغانستان کے سربراہ ہوں گے ان کے ماتحت وزیراعظم یا صدر ہوگا جو ان کی نگرانی میں معاملات چلائے گا۔‘
خیال رہے کہ افغان طالبان پہلے ہی عبوری گورنرز، پولیس چیفس اور صوبوں اور اضلاع کے لیے پولیس کمانڈرز کا اعلان کرچکے ہیں البتہ انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ نئی افغان حکومت کا نظام پارلیمانی ہوگا، صدارتی یا پھر خلافت کے اصولوں پر مبنی ہوگا۔
طالبان کے ایک اور رکن عبدالحنان حقانی نے بتایا کہ ’ہر صوبے میں امارت اسلامی فعال ہے، ہر صوبے میں گورنر موجود ہیں جنہوں نے کام بھی شروع کردیا ہے، ہر ضلعے میں ضلعی گورنر بھی موجود ہیں، پولیس چیفس بھی تعینات ہیں جو لوگوں کے لیے خدمات فراہم کررہے ہیں۔‘
طالبان کے مطابق نئی حکومت کے قیام سے متعلق تو مشاورت مکمل کرلی گئی ہے تاہم نئے نظام کا نام، قومی پرچم اور قومی ترانے سے متعلق اب تک حتمی فیصلہ نہیں ہوا ہے۔
واضح رہے کہ ہیبت اللہ اخوند زادہ طالبان کے افغانستان پر کنٹرول حاصل کیے جانے کے باوجود اب تک منظر عام پر نہیں آئے ہیں البتہ طالبان نے تصدیق کی ہے کہ وہ قندھار میں موجود ہیں۔
افغان امور کے ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ممکنہ طور پر ہیبت اللہ اخوندزادہ پس منظر میں رہ کر معاملات چلائیں گے اور مملکت کے امور میں ان کی رائے حتمی ہوگی۔
ملا ہیبت اللہ کون ہیں؟
ہیبت اللہ اخوند زادہ اسلامی قوانین کے اسکالر اور طالبان کے سپریم لیڈر ہیں جو گروپ کے سیاسی، مذ ہبی اور عسکری امور کے معاملات پر حتمی اختیار رکھتے ہیں۔
اخوند زادہ نے سابق سپریم لیڈر ملا اختر منصور کی 2016 میں پاک افغان سر حد کے قریب امریکی ڈرون حملے میں موت کے بعد تنظیم کی قیادت سنبھالی تھی۔
ان کےساتھیوں اور طلبہ نے برطانوی خبر رساں ایجنسی رائٹرز کو بتایا کہ مئی 2016 میں اخوند زادہ کے اچانک غائب ہونے سے قبل انہوں نے 15 سال تک مبینہ طور پر جنوب مغربی پاکستان کے قصبے کچلاک میں ایک مسجد میں امامت اور تبلیغ کی۔
اندازہ کیا جاتا ہے کہ ان کی عمر تقریباً 60سال ہے۔