سپریم کورٹ میں سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بینچ کر رہا ہے۔
کیس کی سماعت کے دوران احمد رضا قصوری روسٹرم پر آگئے، جس پر چیف جسٹس پاکستان نے احمد رضا قصوری کو بات کرنے سے روک دیا اور کہا کہ آپ اپنی نشست پر بیٹھ جائیں، پہلے عدالتی معاون کو بات مکمل کرنے دیں، آپ کو ان کی کسی بات پر اعتراض ہے تو لکھ لیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا ہمارے سامنے قانونی سوال کیا ہے؟ کیا ایک انٹرویو کی بنیاد پر سپریم کورٹ کے فیصلےکا جائزہ لےکر رائے دیں؟ کیا عدالت ایک انٹرویو کی بنیاد پر انکوائری کرے؟ انٹرویو ایک جج کا تھا جبکہ بینچ میں دیگر ججز بھی تھے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے مزید کہا کہ کیا ہم انٹرویو سے متعلقہ لوگوں کو بلاکر انکوائری شروع کریں؟ ہم صرف ایک انٹرویو کی ویڈیو دیکھ کرتو نہیں کہہ سکتے کہ یہ ہوا تھا، آرٹیکل 186 کے تحت عدالت صرف قانونی سوالات پر رائے دے سکتی ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا یہ بھی بتا دیں کہ بھٹو ریفرنس میں کیا قانونی سوال پوچھا گیا ہے؟
وکیل مخدوم علی خان نے سید شریف الدین پیرزادہ کا خط پڑھ کر سنایا جس میں لکھا تھا ذوالفقارعلی بھٹو کی بہن نے صدر مملکت کے سامنے رحم کی اپیل دائر کی تھی، ذوالفقار علی بھٹو نے بذات خود کوئی رحم کی اپیل دائر نہیں کی تھی۔
عدالتی معاون مخدوم علی خان نے کہا عدالت کے سامنے سوال ذوالفقار بھٹو کی پھانسی پر عملدرآمد کا نہیں ہے، بدقمستی سے ذوالفقارعلی بھٹو کی پھانسی واپس نہیں ہو سکتی، عدالت کے سامنے معاملہ ایک دھبے کا ہے، ذوالفقارعلی بھٹو کو چار تین کے تناسب سے پھانسی کی سزا دی گئی، بعد میں ایک جج نے انٹرویومیں کہا کہ میں نے دباؤمیں فیصلہ دیا۔