پاکستان کی فرنس آئل (فیول آئل) برآمدات رواں برس تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہیں، اور صنعتی و تجارتی حلقوں کا اندازہ ہے کہ آئندہ سال اس رفتار میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے، کیونکہ ایک طرف حکومت نے مقامی سطح پر اس پر ٹیکسوں کا بوجھ بڑھا دیا ہے اور دوسری جانب بجلی پیدا کرنے والے ادارے فرنس آئل کے بجائے نسبتاً صاف اور متبادل ذرائع توانائی کو ترجیح دینا شروع کر چکے ہیں۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق مختلف صنعتی ذرائع اور مارکیٹ سے وابستہ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی جانب سے بڑی مقدار میں فرنس آئل کی برآمدات نے نہ صرف ملکی سطح پر اس کی طلب و رسد کا نقشہ بدل دیا ہے بلکہ پورے ایشیائی خطے میں فیول آئل کی سپلائی بڑھنے سے خطے کی قیمتوں پر بھی نمایاں دباؤ پیدا ہو گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عالمی سطح پر فرنس آئل کی اوور سپلائی کی صورتحال میں پاکستان کی برآمدات ایک اہم فیکٹر بن کر سامنے آئی ہیں۔
کپلر اور ایل ایس ای جی کے اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کی فرنس آئل برآمدات اس سال نئی ریکارڈ سطح کو چھو چکی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق رواں برس اب تک پاکستان 14 لاکھ ٹن سے زائد فرنس آئل برآمد کر چکا ہے، جو تقریباً 89 لاکھ بیرل کے برابر ہے۔ یہ حجم 2024 کے مقابلے میں تقریباً 16 فیصد زیادہ ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نہ صرف برآمدات کی رفتار بڑھی ہے بلکہ پاکستانی ریفائنریز نے واضح طور پر برآمدی مارکیٹ کو ترجیح دینا شروع کر دی ہے۔ ان برآمدات کا بڑا حصہ جنوب مشرقی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے ممالک کو بھیجا گیا، جہاں بحری جہازوں اور صنعتی شعبے میں اس ایندھن کی کھپت موجود ہے۔
ایل ایس ای جی کے مزید اعداد و شمار کے مطابق صرف 2025 میں اب تک 13 لاکھ 30 ہزار ٹن فیول آئل برآمد کیا جا چکا ہے، جو گزشتہ سال کی اسی مدت کے دوران برآمد ہونے والی 11 لاکھ 10 ہزار ٹن کی مقدار سے واضح طور پر زیادہ ہے۔ اس تیز رفتار اضافے نے اس رجحان کو مزید مضبوط کیا ہے کہ پاکستان اب اپنے زائد فرنس آئل کو اندرون ملک کھپت کے بجائے بیرونی منڈیوں میں بیچ کر فائدہ اٹھا رہا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان کی جانب سے بھیجا جانے والا زیادہ تر فرنس آئل ہائی سلفر فیول آئل ہے، جسے بنیادی طور پر بحری جہاز ایندھن کے طور پر استعمال کرتے ہیں، جب کہ اس کی نسبتاً کم مقدار مختلف ریفائنریز میں بطور خام مال (فیڈ اسٹاک) استعمال ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستانی فیول آئل کا بڑا حصہ شپنگ اور میرین فیول مارکیٹ سے جڑا ہوا ہے، جو خود بھی عالمی سطح پر قیمتوں کے اتار چڑھاؤ سے متاثر ہوتی ہے۔
ریسرچ فرم رائسٹڈ انرجی کی نائب صدر ویلیری پانوپیئو کے مطابق پاکستان زیادہ تر ایچ ایس ایف او ایشیائی ممالک کو برآمد کر رہا ہے، اور گرمیوں کے بعد ان ممالک میں اس ایندھن کی سپلائی پہلے ہی کافی حد تک بڑھ جاتی ہے، جس کے نتیجے میں مجموعی طور پر فیول آئل کی قیمتوں میں مزید کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ ان کے مطابق مارکیٹ میں اضافی سپلائی کی یہی کیفیت قیمتوں پر دباؤ بڑھا رہی ہے، اور پاکستان کی برآمدات اسی ٹرینڈ کا حصہ ہیں۔
توانائی اور تیل کی تجارت سے وابستہ ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستانی ریفائنریز نے اس سال نسبتاً زیادہ مقدار میں فیول آئل کھلے بین الاقوامی ٹینڈرز کے ذریعے فروخت کیا۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ حکومت نے ملک کے اندر فرنس آئل کے استعمال پر ٹیکسوں میں اضافہ کر دیا، جس سے مقامی مارکیٹ میں اس کا استعمال کم فائدہ مند ہوتا گیا۔ ساتھ ہی بجلی پیدا کرنے والے ادارے بتدریج فرنس آئل پر انحصار کم کر کے کوئلے، گیس اور بالخصوص سولر سمیت متبادل اور نسبتاً صاف توانائی کے ذرائع کی طرف منتقل ہو رہے ہیں، جس سے اندرون ملک فیول آئل کی ضرورت محدود ہوتی جا رہی ہے۔
تاجروں کے مطابق پاکستان میں سب سے زیادہ فرنس آئل برآمد کرنے والی کمپنی پاک عرب ریفائنری رہی، جب کہ سینرجیکو، اٹک ریفائنری، نیشنل ریفائنری اور پاکستان ریفائنری بھی اس فہرست میں نمایاں طور پر شامل ہیں۔ ان کمپنیوں نے مختلف ادوار میں بین الاقوامی خریداروں کے لیے متعدد کارگو ٹینڈرز کے ذریعے فروختیں کیں، جس سے ملک کی مجموعی برآمدات کے حجم میں اضافہ ہوا۔
ملک کی سب سے بڑی آئل ریفائنری سینرجیکو نے واضح کیا ہے کہ وہ آنے والے عرصے میں اپنی فرنس آئل برآمدات کو مزید بڑھانا چاہتی ہے۔ کمپنی کے نائب چیئرمین اسامہ قریشی کے مطابق مالی سال 25-2024 کے دوران کمپنی تقریباً 2 لاکھ 47 ہزار ٹن فرنس آئل برآمد کر چکی ہے، جو کمپنی کی برآمدی صلاحیت اور بین الاقوامی مانگ کو ظاہر کرتا ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ موجودہ سال میں کمپنی کی برآمدات میں کم از کم 50 فیصد اضافہ ہوگا، کیونکہ اب سینرجیکو زیادہ ہلکا اور کم سلفر والا خام تیل استعمال کر رہی ہے، جس کے نتیجے میں کم سلفر والا، نسبتاً صاف فیول آئل زیادہ مقدار میں تیار ہو رہا ہے، جس کی عالمی مارکیٹ میں الگ مانگ موجود ہے۔
اسامہ قریشی نے یہ بھی بتایا کہ کمپنی نے عالمی تجارتی ادارے وِٹول کے ساتھ شراکت داری قائم کی ہے، جس کا مقصد پاکستانی بندرگاہوں سے کم سلفر والا بحری ایندھن زیادہ منظم اور بڑے پیمانے پر برآمد کرنا ہے۔ اس اشتراک سے توقع ہے کہ پاکستان نہ صرف علاقائی سطح پر بلکہ بین الاقوامی شپنگ مارکیٹ میں بھی اپنی موجودگی مزید مستحکم کر سکے گا۔
پاکستان آئل کمپنیز ایڈوائزری کونسل کے سیکریٹری جنرل سید نذیر عباس زیدی نے بھی اس رجحان کی توثیق کرتے ہوئے کہا کہ 2026 میں فرنس آئل کی برآمدات کا سلسلہ مزید بڑھے گا۔ ان کے مطابق بجلی گھروں کے لیے فرنس آئل اب لاگت کے اعتبار سے فائدہ مند ایندھن نہیں رہا، اور گزشتہ بجٹ میں عائد کیے گئے ٹیکسوں کے بعد اسے مقامی مارکیٹ میں فروخت کرنا بھی منافع بخش نہیں رہا، اس لیے ریفائنریز کے لیے بہترین راستہ یہ ہے کہ وہ اسے بیرونی منڈیوں میں برآمد کریں۔