مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما اور اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے کہا ہے کہ وہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو مخصوص نشستیں دینے سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ نہیں مانیں گے بلکہ وہ کوئی بھی ایکشن لینے سے پہلے الیکشن کمیشن کے فیصلے کا انتظار کریں گے۔
رپورٹ کے مطابق انٹریو میں ایاز صادق نے مخصوص نشستوں سے متعلق سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے کو ’آئین کو دوبارہ لکھنے‘ کے مترادف قرار دیا۔
انہوں نے الیکشن ایکٹ 2017 ترمیمی ایکٹ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایوان اعلیٰ عدالت کا فیصلہ تسلیم نہیں کرے گی کیوں کہ قانون اب تبدیل ہوچکا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم نے عدالتوں کو سننا شروع کردیا تو ایسے بہت سے فیصلے ہیں لہذا ہم عدالتی حکم پر ایسا نہیں کریں گے بلکہ الیکشن کمیشن کے نوٹی فکیشن کا انتظار کریں گے کیوں اس حوالے سے الیکشن کمیشن ہی مجاز اتھارٹی ہے۔
میزبان کی جانب سے پوچھا گیا ’کیا وہ الیکشن کمیشن کو سپریم کورٹ سے بالاتر سمجھتے ہیں؟
جس پر ایاز صادق نے کہا کہ عدالتی فیصلوں سے آگاہ ہونے کے باوجود ارکان اسمبلی سے متعلق وہ الیکشن کمیشن کی ہدایات کا انتظار کرنے کو ترجیح دیں گے۔
اسپیکر قومی اسمبلی نے انکشاف کیا کہ حکومتی بینچز کے ممبران نے ان سے رابطہ کرکے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ لینے کی خواہش ظاہر کی تھی، کیوں کہ ان کے پاس نمبرز پورے تھے۔
ایاز صادق نے کہا کہ انہوں نے ان ممبران کو انتظار کرنے کے لیے کہا ہے، امید ہے کہ 26 ویں ترمیم کی منظوری کے بعد اب اس زیر التوا مسئلے پر توجہ دی جائے گی۔
انہوں نے اعتراف کیا کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی سمیت متعدد پارلیمانی کمیٹیوں میں فیصلہ سازی سست روی کا شکار رہی کیونکہ وہ غیر فعال رہیں۔
میزبان نے سوال پوچھا کہ 26ویں آئینی ترمیم کے بعد یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ ان اصلاحات کے ذریعے عدلیہ کی آزادی کو ختم کردیا گیا ہے؟
ایاز صادق نے جواب دیا ’اگر پارلیمنٹ آئین بناسکتی ہے تو وہ ان لوگوں کی تعیناتی کیوں نہیں کرسکتی جو آئین کی تشریح کرتے ہیں، اور یہ چیز ترقی یافتہ ممالک میں موجود ہے تو ہم کیوں نہیں کرسکتی۔
انہوں نے آرٹیکل 239 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی عدالت آئینی ترامیم پر سوال نہیں اٹھاسکی اور اگر پی ٹی آئی نے اسے چینلج کرنے کی کوشش کی تو یہ آئین کی خلاف ورزی ہوگی۔
پی ٹی آئی کی جانب سے آئینی ترامیم کی حمایت نہ کرنے اور ووٹنگ میں حصہ نہ لینے سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ سیاسی وجوہات کی وجہ سے ہر جماعت کا اپنا موقف ہے، پی ٹی آئی نے 26ویں ترمیم کی حمایت نہیں کی۔
ترمیم کی منظوری کے دوران انٹیلی جنس اداروں کے اہلکاروں کی موجودگی سے متعلق سوال پر اسپیکر قومی اسمبلی نے کہا ’ایجنسی کا کوئی اہلکار بھی قومی اسمبلی کی حدود میں داخل نہیں ہوا‘۔
منحرف اراکین کے خلاف ریفرنس
26ویں آئینی ترمیم میں پی ٹی آئی کے 4 ایم این ایز کے ووٹ پر ایاز صادق کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کے مطابق چاروں ارکان اسمبلی آزاد حیثیت میں منتخب ہوئے۔
انہوں نے کوئٹہ سے منتخب ہونے والے رکن قومی اسمبلی عادل بازائی کی مثال دی، جو بعد میں مسلم لیگ (ن) کا حصہ بن گئے تھے تاہم وہ اپوزیشن کا حصہ بنے رہے جب کہ انہیں حکومتی کمیٹی کی چیئرمین شپ بھی دی گئی لیکن اس کے باوجود آئینی ترامیم سمیت اہم مواقع پر انہوں نے پارٹی کے خلاف ووٹ دیا۔
ایاز صادق کا کہنا تھا کہ انہوں نے عادل بازائی کے خلاف الیکشن کمیشن کو ریفرنس بھیج دیا ہے اور 26ویں ترمیم کے وقت غیر حاضر رہنے پر انہیں پارٹی کی جانب سے نوٹس بھی جاری کیا گیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر کسی پارٹی کو اپنے کسی رکن پر تحفظات ہیں تو شکایت درج کرواسکتے ہیں اور ہم دیکھیں گے اگر وہ ریفرنس میرٹ پر ہوا تو اسے آگے بھیج دیں گے۔