سانحہ کارساز کے دردناک واقعے میں پیپلزپارٹی کے ایک سوستتر کارکنان اور ہمدرد شہید ہوئے،معاملے کی تحقیقات سرکاری کاغذات میں گم ہوکر رہ گئیں۔
کارساز کے مقام شاہراہ فیصل آج سے بارہ برس قبل وہ سانحہ ہوا جو آج تک بھلایا نہیں جاسکا ہے۔ 18 اکتوبر 2007ء کو بے نظیر بھٹو آٹھ سال کی خودساختہ جلاوطنی کاٹنے کے بعد واپس پاکستان پہنچیں۔ ان کی واپسی کو نئے پاکستان کے آغاز سے تعبیر کیا گیا۔ ایئرپورٹ سے روانہ ہوئیں تو قافلہ جلوس کی شکل اختیار کرگیا۔
اس نئے پاکستان کے آغاز، کاروان جمہوریت اور جانثاران بے نظیر کو اس وقت خون میں نہلادیا گیا جب وہ کارساز پہنچے۔ ٹھیک رات بارہ بج کر 52 منٹ پر 50 سیکنڈ کے وقفے سے یکے بعد دیگرے دو دھماکے ہوئے۔
ان دھماکوں میں بے نظیر بھٹو محفوظ رہیں، جبکہ 20 سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 180 جانثاران بے نظیر شہید اور 500 سے زائد زخمی ہوئے۔حکومتی اداروں نے سانحے میں القاعدہ چیف فاہد محمد علی مسلم اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے امیر بیت اللہ محسود کو ملوث قرار دیا جو بعد میں ڈرون حملوں میں مارے گئے۔ جبکہ خودکش بم باروں کو پناہ دینے اور حملے سے قبل انہیں سیکیورٹی اداروں سے چھپا کر رکھنے والا کنواری کالونی کا رہائشی وہاب محسود ملک سے فرار ہوگیا۔خود بے نظیر بھٹو نے اسامہ بن لادن کے بھائی حمزہ، بیت اللہ محسود، لال مسجد کے عسکریت پسندوں اور جنداللہ کو سانحہ کارساز میں ملوث قرار دیا۔
سانحے پر تھانہ بہادرآباد میں دو مقدمات درج ہوئے۔ ایک مقدمہ سرکار کی مدعیت اور دوسرا خود بے نظیر بھٹو کی مدعیت میں درج کیا گیا۔سرکار کی مدعیت میں درج ہونے والا مقدمہ سی آئی ڈی منتقل ہونے کے بعد اے کلاس کرکے بند کردیا گیا، جبکہ بے نظیر بھٹو کی مدعیت میں درج ہوے والے مقدمے کو سی کلاس کرکے نظر انداز کردیا گیا۔