چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے ہیں کہ جنرل 4، 5 مرتبہ خود کو توسیع دیتے رہتے ہیں یہ معاملہ اب واضح ہونا چاہیے۔ اضی میں 6 سے 7 جنرل توسیع لیتے رہے کسی نے پوچھا تک نہیں، اب معاملہ ہمارے پاس آیا ہے تو طے کرلیتے ہیں۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے خلاف درخواست پر سماعت ہو رہی ہے۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کیس کی سماعت کر رہا ہے۔ بینچ میں جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس منصور علی شاہ بھی شامل ہیں۔
تین رکنی بینچ کے سربراہ نے کہا یہ انتہائی اہم معاملہ ہے، اس میں سب کی بات سنیں گے، یہ سوال آج تک کسی نے نہیں اٹھایا، اگر سوال اٹھ گیا ہے تو اسے دیکھیں گے۔
اٹارنی جنرل نے کابینہ کی نئی سمری عدالت میں پیش کی اور موقف اپنایا کہ عدالت کو آرمی رولز کی شق 255 اورآئین کی شق 243 کو الگ الگ دیکھنا ہوگا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ازسرنو اور توسیع سے متعلق قانون دکھائیں جن پرعمل کیا، تسلی سے سب کو سنیں گے کوئی جلدی نہیں۔
حکومتی وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ رول19 کےمطابق جواب نہ آنے کا مطلب ہاں ہے۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ لیفٹیننٹ جنرل کی ریٹائرمنٹ کی عمر 57 سال ہے لیکن اس رول میں آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ کی مدت کا ذکر نہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ماضی میں 6 سے 7 جنرل توسیع لیتے رہے کسی نے پوچھا تک نہیں، اب معاملہ ہمارے پاس آیا ہے تو طے کرلیتے ہیں۔
اٹارنی جنرل اور فروغ نسیم حکومت کی جانب سے عدالت میں پیش ہوئے جب کہ درخواستگزار ریاض حنیف راہی بھی عدالت میں موجود ہیں۔
آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے خلاف درخواست جیورسٹ فاؤنڈیشن کی جانب سے دائر کی گئی تھی جس میں سیکریٹری دفاع اور دیگر کو فریق بنایا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: سپریم کورٹ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا حکم معطل کردیا
واضح رہے کہ رواں سال 19 اگست کو جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں تین سال کی توسیع کی گئی تھی۔
وزیراعظم آفس سے جاری نوٹی فکیشن کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے موجودہ مدت مکمل ہونے کے بعد سے جنرل قمر جاوید باجوہ کو مزید 3 سال کے لیے آرمی چیف مقرر کردیا۔
نوٹیفکیشن میں کہا گیا آرمی چیف کی مدت میں توسیع کا فیصلہ علاقائی سیکیورٹی کی صورتحال کے تناظر میں کیا گیا۔