معذور افراد کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے پاکستان سمیت دنیا بھرمیں آج معذوروں کا دن منایا جارہا ہے۔
معذور افراد کے عالمی دن کو منانے کا آغاز 1952 میں اقوام متحدہ میں معذور افراد کی داد رسی کیلئے قرارداد پاس کرکے کیاگیا اس دن کو عالمی سطح پر منانے کا مقصد معذور افراد کے ساتھ اظہار یکجہتی اور انھیں کسی بھی طرح کے احساس کمتری کا شکار ہونے سے بچا کر ان کو زندگی کے دھارے میں شامل کرنا ہے۔
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت دنیا میں 650 ملین افراد اپاہج ہیں ، یعنی دنیا کی آبادی کا 10 فیصدان لوگوں کا ہے جنہیں ترقی پذیر ممالک میں بوجھ سمجھا جاتا ہے انھیں ایسی پرانی گاڑی کا مقام دیا جاتا ہے جو کبھی ٹھیک نہیں ہو سکتی المیہ یہ ہے کہ ان ممالک میں 80 فیصد اپاہج لوگ پائے جاتے ہیں جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں صرف 20فیصد اپاہج ہیں جنہیں دنیا بھر کی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں اور انکے علاج معالجے کا بوجھ حکومتوں پر ہوتا ہے جبکہ ترقی پذیر ممالک میں اسکے برعکس ہے۔
ترقی پزیر ممالک میں 80 سے 90 فیصد خصوصی افراد کو زندگی میں آگے بڑھنے کے مواقع میسر نہیں اور وہ صلاحیتیں ہونے کے باوجود بے کار ہیں جب کہ ترقی یافتہ میں اس کا تناسب 50 سے 70 فیصد ہے ترقی پزیر ممالک میں خصوصی افراد کی تعلیم اور بنیادی حقوق پر بھی کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی اور 90 فیصد خصوصی بچوں کو اسکول نہیں بھیجا جاتا ۔اس وقت دنیا میں تقریباً 20 ملین نامولود بچے ماؤں کی کمزوری اور دوسری وجوہات کی بناء پرمعذور پیدا ہوتے ہیں تاہم انسان کے اپنے ہی ہاتھوں انسانیت دشمن پالیسیوں اور کارروائیوں سے بھی بے شمار لوگوں کو معذور بنایا رہا ہے ۔
خصوصی افراد نے دنیا کے ہر شعبے میں اپنا لوہا منوایا اور اپنی صلاحیتوں سے یہ ثابت کر دیا اگران کے ساتھ ان کے ساتھ تعاون کیا جائے تو یہ عام لوگوں کی طرح اپنی زندگی گزار سکتے ہیں ۔ آج کا دن منانے کا مقصد بھی یہی ہے کہ ہم رنگ، نسل اور ذات سے بالاتر ہو کر یہ عہد کریں کہ خصوصی افراد کی بحالی میں اپنا بھر پور کردار ادا کریں گا۔