اسلام آباد: چیف جسٹس گلزاراحمد نے ریمارکس دیے ہیں کہ ٹیسٹنگ کٹس اور ای پی پیز پر اربوں روپے خرچ کیے جارہے ہیں، کسی چیز میں شفافیت نہیں، کوویڈ 19 کے اخراجات کا آڈٹ ہوگا تو اصل بات پھر سامنے آئے گی۔
سپریم کورٹ میں کرونا وائرس ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ ماسک اور گلوز کےلیے کتنے پیسے چاہیے؟ اگر ہول سیل میں خریدا جائےتو2 روپے کا ماسک ملتا ہے تو ان چیزوں پر اربوں روپے کیسے خرچ ہورہے ہیں؟
چیف جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا کہ پتہ نہیں یہ چیزیں کیسے خریدی جارہی ہیں؟ سارے کام لگتا ہے کاغذوں میں ہی ہورہے ہیں، وفاق اور صوبائی حکومتوں کی رپورٹ میں کچھ بھی نہیں ہے، رپورٹ میں نہیں بتایا گیا کہ ادارے کیا کام کررہے ہیں۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ این ڈی ایم اے کی رپورٹ آئی ہے لیکن اس میں کچھ واضح نہیں۔ این ڈی ایم اے کی نمائندگی کون کررہا ہے؟ ڈی سی اسلام آباد نے عدالت کا آگاہ کیا کہ حاجی کیمپ قرنطینہ مرکز این ڈی ایم اے نے بنایا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سندھ حکومت ایک درخواست پر دکان اور فیکٹری کھولنے کی اجازت دے رہی ہے۔ سندھ میں پالیسی بنانے کی بجائے فیکٹری کھولنے کی اجازت دی جا رہی ہے۔ ملکی حالات بہت خراب ہو چکے ہیں،لوگوں کا کاروبار اورروزگار چلا گیا ہے۔
معززجج نے کہا صوبائی حکومت کا وزیر کہتا ہے کہ وفاقی حکومت کے خلاف مقدمہ کرا دیں گے، پتہ ہے کہ صوبائی وزیر کیا کہہ رہے ہیں، یعنی صوبائی وزیر کا دماغ بلکل آؤٹ ہے،دماغ پر کیا چیز چڑھ گئی ہے پتہ نہیں۔
جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ حکومت نے مارکیٹیں بند کر کے مساجد کھول دی ہیں، کسی جگہ پر ریگولیشنز پر عمل درآمد نہیں ہو رہا،
انہوں نے استفسار کیا کہ کیا مساجد سے کورونا وائرس نہیں پھیلے گا؟ 90 فیصد مساجد میں میں ریگولیشنز پر عمل نہیں ہو رہا۔ اگر فاصلہ رکھنا ہے تو سب جگہ پر رکھنا ہو گا۔
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے بتایا کہ پنجاب میں 37 صنعتیں کھولی گئی ہیں۔ عدالت استفسار کیا کہ 37 صنعتیں کھول دیں باقی صنعتوں کے ساتھ کیا مسئلہ ہے؟
جسٹس قاضی امین نے کہا کہ پنجاب سے متعلق جو آپ کاغذ پڑھ رہے ہیں حقیقت اس سے مختلف ہے۔ میں خود پنجاب کا ہوں ، مجھے علم ہے وہاں صورتحال کیسی ہے۔