سپریم کورٹ آف پاکستان نے سانحہ آرمی پبلک اسکول کے متعلق ازخود نوٹس میں وزیراعظم عمران خان کو آج ہی طلب کرلیا ہے۔
آج جب سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس پاکستان نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ بتائیں کیا وزیراعظم نے گزشتہ سماعت کا عدالتی حکم پڑھا ہے یا نہیں؟
گزشتہ سماعت میں عدالت نے وزیراعظم کو حکم دیا تھا کہ بتائیں سینئرز اور اعلیٰ عہدیداروں کیخلاف کیا کارروائی کی گئی؟
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وزیراعظم کو عدالتی حکم نہیں بھیجا تھا۔ وزیراعظم کو عدالتی حکم سے آگاہ کروں گا۔
چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب یہ سنجیدگی کا عالم ہے؟ وزیراعظم کو بلائیں ان سے خود بات کریں گے۔ایسے نہیں چلے گا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہم اپنی تمام غلطیاں قبول کرتے ہیں۔ اعلیٰ حکام کے خلاف کوئی ایف آئی آر درج نہیں ہو سکتی۔ میں دفتر چھوڑ دونگا کسی کا دفاع نہیں کروں گا۔
چیف جسٹس نے سوالیہ انداز میں پوچھا کہ اپنے لوگوں کے تحفظ کی بات آئے تو انٹیلی جنس کہاں چلی جاتی ہے؟
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا اداروں کو معلوم ہونا چاہیے تھا قبائلی علاقوں میں آپریشن کا رد عمل آئے گا۔ سب سے نازک اور آسان ہدف اسکول کے بچے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ کہا کہ اے پی ایس واقعہ سیکیورٹی کی ناکامی تھی۔ یہ ممکن نہیں کہ دہشتگردوں کو اندر سے سپورٹ نہ ملی ہو۔
جسٹس قاضی امین نے کہا کہ اطلاعات ہیں کہ ریاست کسی گروہ سے مذاکرات کررہی ہے، کیا اصل ملزمان تک پہنچنا اور پکڑنا ریاست کا کام نہیں؟
چیف جسٹس نے کہا کہ بچوں کو سکولوں میں مرنے کیلئے نہیں چھوڑ سکتے، چوکیدار اور سپاہیوں کیخلاف کارروائی کر دی گئی۔ اصل میں تو کارروائی اوپر سے شروع ہونی چاہیے تھی۔ اوپر والے تنخواہیں اور مراعات لے کرچلتے بنے۔ کیس میں رہ جانے والے معاملات پر آپ نے آگاہ کرنا تھا۔
وکیل والدین امان اللہ کنرانی نے کہا کہ حکومت ٹی ایل پی کے ساتھ مزاکرات کر رہی ہے۔ قصاص کا حق والدین کا ہے ریاست کا نہیں۔ ریاست سمجھوتہ نہیں کرسکتی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ عدالت ہے یہاں سیاسی باتیں نہ کریں۔
چیف جسٹس نےکہا ملک میں اتنا بڑا انٹیلی جنس سسٹم ہے، اربوں روپے انٹیلی جنس پر خرچ ہوتے۔ دعوی بھی ہے کہ ہم دنیا کی بہترین انٹیلی جنس ایجنسی ہیں۔ انٹیلیجنس پر اتنا خرچ ہورہا ہے لیکن نتائج صفر ہیں۔
انہوں نے استفسار کیا کہ کیا سابق آرمی چیف اور دیگر ذمہ داران کیخلاف مقدمہ درج ہوا؟
اٹارنی جنرل نے بتایا سابق آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کیخلاف انکوائری رپورٹ میں کوئی فائنڈنگ نہیں ہے۔