وفاقی حکومت نے یکم جولائی سے ملک بھر میں دکانیں، کمرشل ایریاز رات 8 بجے بند کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت قومی اقتصادی کونسل (این ای سی) کا اجلاس ہوا، اجلاس میں پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخوا کے وزرائے اعلیٰ شریک ہوئے، جبکہ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ نے اجلاس کا بائیکاٹ کیا۔
قومی اقتصادی کونسل کے اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا کہ عالمی سطح پر بڑھتی قیمتوں کی وجہ سے توانائی پاکستان کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج بن گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب نے ایک بار پھر 10 لاکھ بیرل یومیہ پیداوار کم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کی وجہ سے خطرہ ہے کہ سال کے آخر تک تیل کی قیمتیں ایک بار پھر 100 ڈالر فی بیرل تک پہنچ سکتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر ہم ایندھن اور تیل پر انحصار کریں گے تو ہماری معیشت اسی طرح خطرات میں گھری رہے گی، لہٰذا حکومت کوشش کر رہی ہے کہ دو طرح کے اقدامات کیے جائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک اقدام یہ ہے کہ ہم توانائی کی بچت کریں اور اس کے لیے آج جو کابینہ نے پیکج منظور کیا تھا کہ انرجی کو بچانے کے لیے دکانوں اور کمرشل سینٹرز کو رات 8 بجے بند ہونا چاہیے، اسی طرح جو لائٹس ہیں، جو پرانے بلب ہیں، ان کو ختم کرکے ایل ای ڈی لائٹس کا استعمال کیا جائے۔
احسن اقبال نے کہا کہ دیکھیں امریکا، یورپ جیسے بڑے بڑے ممالک جو ہم سے بہت زیادہ خوشحال ہیں، ہم سے بہت زیادہ امیر ہیں، وہ بھی 11، 12 بجے تک کمرشل ایریا کھولنے کی عیاشی برداشت نہیں کرسکتے۔
ان کا کہنا تھا کہ آپ یورپ میں جائیں تو وہاں بھی 6 بجے، 6 بجے نہیں تو حد ہے کہ 8 بجے تک تمام کمرشل ایریاز بند ہوجاتے ہیں، اسی طرح آپ چین چلے جائیں، ملائیشیا، انڈونیشیا میں چلے جائیں، کوئی ہماری طرح کی غیر ذمہ دارانہ طرز زندگی نہیں اپناتا کہ جس میں آپ رات ایک، 2 بجے تک تمام تجارتی مراکز کھلے رکھیں اور اپنے ملک کا قیمتی زرمبادلہ اپنی دکانوں میں بلبوں کی صورت میں چلائیں۔