چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ پارلیمان کچھ کرے تو سب کو حلف یاد آتا ہے، مارشل لا لگے تو حلف بھی بھول جاتے ہیں، کیا آپ اگلے مارشل لا کا دورازہ ہم سے کھلوانا چاہتے ہیں، نظرثانی میں اپیل کا حق ملنے سے آپ کوکیا تکلیف ہے۔
سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر سماعت کے دوران درخواستگزار مدثر حسن کے وکیل حسن عرفان سوال کیا گیا کہ صرف یہ بتا دیں کہ کن دفعات سےآپ متفق یا مخالف ہیں’۔ وکیل حسن عرفان نے جواب دیا کہ تمام عدالتی سوالات کے جواب آئین میں موجود ہیں، پارلیمان نے قانون سازی کی آڑ میں آئین میں ترمیم کر دی ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ آپ مفاد عامہ کی بات کر رہے ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا انصاف تک رسائی کیلئے قانون سازی نہیں ہوسکتی، درخواست گزار اس کیس سے کیسے متاثرہ فریق ہے۔
وکیل نے جواب دیا کہ میرا مؤکل وکیل ہے اور نظام انصاف کی فراہمی کا اسٹیک ہولڈر ہے۔ جس پر جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسار کیا کہ عوام کا انصاف تک رسائی کا بنیادی حق کیسے متاثر ہوا؟
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ انصاف تک رسائی کیلئے عدالت کو آزاد ہونا چاہیے، عدلیہ کی آزادی بنیادی حقوق سے جڑی ہے، پہلے بتائیں کہ ایکٹ سے بنیادی حق کیسے متاثر ہوتا ہے، درخواستوں کے قابل سماعت ہونے سے آگے نکل چکے ہیں، انصاف تک رسائی کیلئے بنیادی شرط آزاد عدلیہ ہے۔
جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ کیا اپیل کا حق نہ ہونا انصاف تک رسائی کے منافی نہیں۔ وکیل حسن عرفان نے مؤقف پیش کیا کہ قانون سازوں کے ذہن میں شاید یہ سوال کبھی آیا ہی نہیں تھا، پارلیمان سپریم ضرورہے لیکن آئین کے بھی تابع ہے، چیف جسٹس، وزیراعظم اور صدر نے آئین کے تحفظ کا حلف اٹھایا ہوتا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ حلف میں آئین کے ساتھ قانون کا بھی ذکر ہے، اسے مدنظر رکھیں، جب مارشل لاء لگتا ہے سب ہتھیار پھینک دیتے ہیں، مارشل لاء لگے تو حلف کو بھول جایا جاتا ہے، پارلیمان کچھ کرے تو سب کو حلف یاد آ جاتا ہے، یہاں مارشل لا نہیں ہے، ماضی میں وکلاء 184تین کے بے دریغ استعمال پر تنقید کرتے رہے۔
چہف جسٹس نے وکیل سے مکالمہ کیا کہ، ’آپ کے بطور شہری اس ایکٹ سے کون سے حقوق متاثرہوئے، کیا آپ اگلے مارشل لا کا دورازہ ہم سے کھلوانا چاہتے ہیں، نظرثانی میں اپیل کا حق ملنے سے آپ کو کیا تکلیف ہے‘۔