وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے حج اخراجات پر سبسڈی نہ دینے سے متعلق اپوزیشن کے توجہ دلاؤ نوٹس پر جواب دیتے ہوئے کہا ہےکہ حج کے 70 فیصد اخراجات سعودی عرب میں آتے ہیں جن پر ہمارا کنٹرول نہیں۔
سینیٹ اجلاس میں حکومت کی حج پالیسی 2019 میں سبسڈی نہ دینے سے متعلق جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے توجہ دلاؤ نوٹس پیش کیا اور جماعت اسلامی نے حج اخراجات میں اضافے پر احتجاج بھی کیا۔
جماعت اسلامی کے رکن مشتاق احمد نےکہا حکومت کا دعویٰ تھا کہ مدینہ کی ریاست بنائیں گے، ان کی پہلی حج پالیسی مایوس کن ہے، دنیا میں سب سے زیادہ پاکستان سے لوگ حج اور عمرے پر جاتے ہیں، مہنگائی کی سونامی کی زد میں حج بھی آگیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مدینہ کی ریاست کے دعویدار لوگوں کو مکہ مدینہ کی زیارت سے روک رہے ہیں۔
توجہ دلاؤ نوٹس کا جواب دیتے ہوئے وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے کہا کہ اسدعمر چاہتے تھے کہ حج اخراجات پر ریلیف ملے، ہماری اب بھی کوشش ہے کہ حج اخراجات پر ریلیف مل جائے لیکن حج کے 70 فیصد اخراجات سعودی عرب میں آتے ہیں جن پر ہمارا کنٹرول نہیں۔
انہوں نے بتایا کہ سعودی عرب میں حج اخراجات میں 50 فیصد تک اضافہ ہوا ہے، حج پر عمارت کے اخراجات بڑھ کر 94 ہزار ہوگئے ہیں، ٹرانسپورٹ پر کرایہ بڑھ کر 13 ہزار، کھانے کے اخراجات بڑھ کر 38 ہزار، مدینہ میں رہائش کے اخراجات بڑھ کر 40 ہزار، لازمی حج چارجز 70 ہزار اور قربانی کے اخراجات بھی بڑھ کر 19 ہزار ہوگئے ہیں۔
وزیر مملکت کا کہنا تھا کہ سال 18-2017 میں حج اخراجات میں کچھ نہ کچھ اضافہ کردینا چاہیے تھا لیکن الیکشن کے باعث گزشتہ حکومت نے حج اخراجات میں اضافہ نہیں کیا، ہم ابھی بھی کوشش کررہے ہیں کہ کچھ نا کچھ ریلیف مل جائے۔
علی محمد خان نے مزید کہا کہ مدینہ کی ریاست میں لوگوں سے سچ بولا جاتا ہے اور ہم مدینہ کی ریاست قائم کرکے دکھائیں گے۔
اس موقع پر چیئرمین سینیٹ نے بھی حکومت سے حج پر سبسڈی دینےکا کہا۔