وزیراعظم شہبازشریف کا کہنا ہے کہ آرمی چیف نے اسلام آباد میں فسادیوں سے نمٹنے کیلئے بھرپور تعاون کیا۔
وفاقی کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسلام آباد میں ہونےوالے واقعے کی بھرپور مذمت کرتےہیں،ہماری فورسز نے بہتر حکمت عملی کے ساتھ احتجاج کا خاتمہ کیا۔
اسلام آباد میں فساد برپا کیا گیاتھا،احتجاج کے دوران اسلام آباد کے شہریوں اور تاجروں کو مشکلات کا سامناکرناپڑا،قانون نافذ کرنے والے اداروں نے شرپسندوں کو گرفتار کیا۔
احتجاج کے باعث ایک دن میں اسٹاک مارکیٹ کو بڑا نقصان پہنچا،احتجاج کے باعث 100انڈیکس4 ہزار پوائنٹس تک گرگیا،احتجاج سے معیشت کو جو نقصان پہنچا وہ آپ کے سامنے ہے۔
اسلام آباد میں کئی دنوں سے کاروبار نہ ہونے کے برابر تھا،جڑواں شہروں میں زندگی معطل ہوچکی تھی،دکانیں بند تھیں،سیاح دہائیاں دے رہے تھے،جن کی فیکٹریاں تھیں وہ بے حد پریشان تھے۔
اسپتالوں میں مریضوں کو بے پناہ مشکلات کاسامنا کرنا پڑا،2014سے پہلے اسلام آباد پر چڑھائی کا کوئی تصور نہیں تھا،2014کے دھرنے کے باعث چینی صدر کا دورہ پاکستان ملتوی ہوا۔
126دن چلنےوالے دھرنے نے معیشت کو کئی سال پیچھے دھکیل دیا،سعودی وفد کے دورے کے دوران بھی احتجاج اور ہنگامہ آرائی کی گئی،ایس سی او کانفرنس کے دوران بھی احتجاج کی کال دی گئی۔
پرامن احتجاج سب کا حق ہے لیکن قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں ،فسادیوں سے ملک کی ترقی ہضم نہیں ہورہی ،سرمایہ کاری وہاں کی جاتی ہے جہاں امن قائم ہو،ہم سرمایہ کاری کا ماحول بنارہےہیں مگر کچھ لوگ فساد برپا کررہےہیں
یہ فسادی پاکستان کی ترقی کے دشمن بن چکے ہیں،وقت آگیاہے کہ اب مشاورت کے ساتھ سخت فیصلے کرناہوں گے،ہمارے پاس پاکستان کی ترقی کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں۔
بطور وزیراعظم فیصلہ کرتاہوں کہ فسادیوں کو دوبارہ احتجاج نہیں کرنے دینا،ایک طرف پاکستان کی ترقی کی بات اور دوسری طرف میدان جنگ بنا ہواتھا۔
بے شمار لوگ اسلحہ لیکر آتے ہیں جو پاکستانی نہیں،یہاں پر بے گناہ شہریوں کو تنگ کرتے ہیں زخمی کرتے ہیں،پچھلے احتجاج کے دوران اسلام آباد پولیس کے اہلکار کو شہید کیاگیا۔
عام آدمی ملک دشمنی کا کبھی سوچ بھی نہیں سکتا،9مئی کے ملزمان کو عدالتوں سے سزا ہوجاتی تو یہ حالات پیدا نہ ہوتے،قانون کو ہاتھ میں لینے والوں کو سزائیں ملتیں تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتے۔
انہوں نے مزید کہا خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی نے پھر سر اٹھالیاہے،وزیراعلیٰ علی امین صوبے کو چھوڑ کر اسلحہ اٹھاکر وفاق پر چڑھائی کرنے نکلے ،احتجاج کے دوران سرکاری وسائل کا استعمال نہیں کیاجاناچاہیے۔
خیبرپختونخوا حکومت کو توجہ پاراچنار پر مرکوز کرنی چاہیے،سمجھ سے بالاتر ہے کہ اپنے دارالحکومت پر کون چڑھائی کرتاہے؟ہمیں باہمی مشورےسے سخت فیصلے کرنا پڑیں گے۔
فیصلہ کرنا ہوگا کہ معیشت کو بچانا ہے یا آئے روز دھرنے کا سامنا کرناہے،ہمارے پاس دو راستے ہیں، فیصلہ کرنا ہوگا کس راستے پر چلنا ہے،ہمارے پاس پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کا ایک ہی آپشن ہے۔
پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے علاوہ اورکوئی آپشن نہیں،فیصلہ کرنا ہے کہ آج کے بعد ان فسادیوں کو مزید موقع نہیں دینا ،بیلا روس کے صدر پاکستان تشریف لائے ،وہ پاکستان سےانتہائی محبت کرنے والے شخص ہیں۔
سوچ بچار کرکے فیصلہ کرنا ہے کہ آگے کس طرح بڑھنا ہے،میں اسلام آباد،پنجاب پولیس اوررینجرز کاشکریہ ادا کرتا ہوں ،سیکیورٹی اداروں نے کل رات ان کو دھکیلا اوراسلام آباد خالی کرایا۔
آج خیبر پختونخوا میں دہشت گردی سراٹھا رہی ہے،سرکاری وسائل استعمال کرتے بندوقیں لیکر اسلام آباد پر لشکر کشی کی گئی،آج غریب آدمی پر زندگی تنگ ہوچکی ہے۔
غریب آدمی نہ اپنے بچوں کو اسکول بھیج سکتا ہے نہ اسپتال جاسکتا ہے،یہ لوگ دھاوا بولتے ہیں،غلیظ زبان استعمال کرتے ہیں،ہمیں سنجیدگی کے ساتھ اس پر گفتگو کرنی چاہئے۔
ان کو تکلیف ہے کہ پاکستان ڈیفالٹ ہونے سے کیوں بچ گیا،پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچانےکیلئے ہم نے سیاسی قیمت چکائی،دل خون کے ا ٓنسو روتاہے ہم اتنی محنت کریں اور یہ لوگ ملک کو نقصان پہنچائیں۔
یہ لوگ کہتےہیں الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے،2018کے الیکشن میں اتنی بڑی دھاندلی ہوئی اس کا حساب کون دےگا؟ 2018کے الیکشن کےبعد پارلیمنٹ میں ہم کالی پٹیاں باندھ کر آئے۔
کچھ دوستوں نے کہاکہ پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کریں مگر ہم نے کہا ایسا نہیں کریں گے،بانی پی ٹی آئی اس وقت میرے پاس آئے اور کہا کہ معاملے پرانکوائری کمیٹی بناتےہیں۔
ان کی طرف سے انکوائری کمیٹی کیلئے شفقت محمود کا نام بھی دیا گیا تھا،آج تک اس کمیٹی کی ایک یا دو میٹنگ ہوئی،ہم نے اسلام آباد پر چڑھائی کا تصور بھی نہیں کیا۔
وزیر اعظم کا اپنے خطاب میں مزید کہنا تھا تمام مذہبی اور سیاسی جماعتوں نے جلسے ،جلوس نکالے ،کسی نے ایک گملا نہیں توڑا،یہ ہے ایک تقابلی جائزہ جو قوم کے سامنے آنا چاہئے،پی ٹی آئی کے احتجاج کے نتیجے میں 190ارب روپے کا نقصان معیشت کو پہنچ رہا ہے۔
ذاتی مفاد کیلئے قوم کانقصان کرنے سے بڑا جرم نہیں ہوسکتا،چند دن پہلے ہمارے دوست ملک کو تکلیف پہنچائی،بشریٰ بی بی کے بیان سے زیادہ پاکستان سے دشمنی نہیں ہوسکتی،یہ کوئی تحریک نہیں یہ تخریب کاری اورفتنہ ہے۔
سیاست میں فتنے اورتخریب کاری کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی،سیاسی پارٹیاں قومی ترقی میں اپنا کردارادا کرتی ہیں،پاکستان کےدوست ممالک کو ناراض کرنا کہاں کی سیاست ہے،اس جتھہ بندی کا ہمیں ہر صورت خاتمہ کرنا ہوگا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے احکامات جاری کیے احتجاج نہیں ہوگا،ان لوگوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ کےا حکامات کی خلاف ورزی کی،ایک شخص اپنی ذات کو پاکستان سے اوپر لے جانے کیلئے تلا ہوا ہے۔
پاکستان کو نقصان پہنچانے والے ہاتھ کو توڑ دیں گے،پاکستان کو کسی بھی صورت نقصان نہیں ہونےدیں گے۔