پشاور کے ہائی سیکیورٹی زون ورسک روڈ پر واقع مسلح افواج کے زیر انتظام آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) پر دہشتگردوں کے حملے کو آج 10 سال مکمل ہو گئے ہیں، لیکن اس سانحے میں شہید ہونے والے بچوں کے والدین کا کہنا ہے کہ اس دن کے بعد سے ان کی زندگیوں میں خوشیاں ہی ختم ہو گئی ہیں۔
سانحہ اے پی ایس کے شہدا بچوں کے والدین آج بھی ایک جگہ بیٹھ کر اپنے بچوں کو یاد کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو تسلی دے کر اپنا غم بانٹنے کی کوشش کرتے ہیں.
شہیر خان بھی آرمی پبلک اسکول کے شہدا میں شامل ہیں، جو 2014 میں آج کے دن ہی خوشی خوشی علم کی شمع جلانے نکلے تھے لیکن وہ کبھی واپس نہیں آئے مگر ان کے نام کی شمع آج بھی روشن ہے۔ شہیر کے والد اور والدہ کوشش کے باوجود بھی اس دن کو بھلا نہیں پارہے، شہید شہیر کے والد طاہر خان کہتے ہیں کہ ان کی زندگی 16 دسمبر 2014 پر ہی رکی ہوئی ہے، دسمبر کا مہینہ شروع ہوتے ہی ان کے زخم دوبارہ تازہ ہو جاتے ہیں۔
’ہم اس دن کو کبھی ایک سیکنڈ کے لیے بھی بھول نہیں پائے ہیں، ہماری حالت اور کیفیت کوئی دوسرا شخص شاید کبھی نہیں سمجھ پائے گا۔‘
طاہر خان نے بتایا کہ 16 دسمبر 2014 کو ان کے رشتہ دار نے انہیں فون کرکے بتایا کہ آرمی پبلک اسکول پر دہشتگردوں نے حملہ کر دیا ہے۔ ’جب مجھے فون پر حملے کا بتایا گیا تو میں نے کہا وہ آرمی اسکول ہے اور آرمی تعنیات ہے، اس میں فکر والی بات کیا ہے۔‘
وہ بتاتے ہیں، ’جب میں اسکول گیٹ تک پہنچا تو وہاں صورت حال مختلف تھی اور وہاں مسلسل فائرنگ کی آوازیں آرہی تھیں، اس وقت وہاں جو صورت حال تھی میں وہ بیان نہیں کرسکتا، چیخ و پکار، فائرنگ، دہشتگردوں کو روکنے والا کوئی نہیں تھا۔
طاہر خان نے کہا، ’وہاں جو کچھ دیکھا وہ سب دل پر نقش ہے، اس غم کو اب اپنے ساتھ قبر میں لے کر جائیں گے، ہم نارمل نہیں ہیں، عام لوگوں کو جو خوشی محسوس ہوتی ہے وہ ہماری زندگی میں نہیں ہیں۔‘ طاہر خان کے ساتھ ان کی اہلیہ بھی موجود تھیں، ان کی نم آنکھوں سے ان کی غم کی شدت کا اندازہ ہورہا تھا۔ شہیر شہید کی والدہ نے بتایا کہ اب غم اور آنسو ان کی زندگی مقدر بن گئے ہیں اور بس اپنی زندگی کے دن کاٹ رہے ہیں۔
’بس دن گزر رہے ہیں، لگ نہیں رہا ہے کہ 10 سال ہوگئے ہیں، ان 10 برسوں میں ہم ایک سیکنڈ بھی اپنے بچے کو بھول نہیں پائے۔‘
سانحہ اے پی ایس میں شہید والے بچوں کے والدین انصاف نہ ملنے کا شکوہ بھی کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مسلسل کوششوں اور مظاہروں کے بعد جوڈیشیل انکوائری کا فیصلہ ہوا، لیکن اس کا بھی کچھ فائدہ نہیں ہوا۔
16 دسمبر 2014: سانحہ اے پی ایس
یہ منگل کا دن تھا۔ اس روز پشاور کے ورسک روڈ پر واقع آرمی پبلک اسکول پر دہشتگردوں نے حملہ کیا تھا۔ دہشتگرد سرکاری اہلکاروں کی وردیوں میں ملبوس 6 دہشتگرد دیوار پھلانگ کر اسکول میں داخل ہوئے اور ننھے بچوں کو نشانہ بنایا۔ واقعہ کے فوری بعد سیکیورٹی فورسز کے دستے وہاں پہنچ گئے اور آپریشن شروع کردیا۔ دہشتگردوں کے اس حملے میں 144 ننھے بچوں سمیت 147 افراد شہید ہو گئے تھے
دہشتگردی کے اس واقعہ نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اس وقت کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے پشاور کا دورہ کیا اور خصوصی اجلاس میں نیشنل ایکشن پلان تشکیل دے کر دہشتگردوں کے خلاف کلین اپ آپریشن کا فیصلہ کیا۔ غم سے نڈھال والدین کو مکمل یقین دہائی کرائی گئی کہ انہیں انصاف ملے گا اور ایک بھی دہشتگرد کو نہیں چھوڑا جائے گا۔
صدر اور وزیراعظم کا اے پی ایس پشاور کے شہدا کو خراج عقیدت
صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعظم شہباز شریف نے پاکستان سے دہشتگردی کے ناسورکے مکمل خاتمے تک اس کے خلاف جنگ جاری رکھنے کے پختہ عزم کا اظہار کیا ہے۔
آرمی پبلک سکول پشاور کے سانحے کی 10 ویں برسی کے موقع پر اپنے پیغامات میں صدر مملکت نے کہا کہ 16 دسمبر کا دن قوم کی اجتماعی یادداشت پرانمٹ نقوش چھوڑ گیا، جب دہشتگردوں نے ہمارے بچوں کو بے دردی سے قتل کیا۔
آصف علی زرداری نے معصوم بچوں کے ورثا سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ دن دہشتگردی کے خلاف جنگ میں قوم کی قربانیوں کی یاد دلاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سانحہ اے پی ایس جیسے واقعات سے دہشت گردوں اور خوارج کا اصل چہرہ بے نقاب ہوتا ہے اور پاکستانی قوم دہشتگردوں کو ان کے مذموم عزائم میں کامیاب نہیں ہونے دے گی۔
اپنے پیغام میں وزیراعظم نے ایک پرامن اور محفوظ پاکستان بنانے کے اپنے عزم کا اعادہ کیا جہاں کسی بے گناہ کو بربریت کا سامنا نہ کرنا پڑے اور تمام مجرموں کو ان کے جرائم کی مثالی سزا دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ پوری قوم بزدل دہشتگردوں کے خلاف فولاد کی دیوار بن کر کھڑی ہے اور کھڑی رہے گی۔ انہوں نے قوم کو یاد دلایا کہ خوارج اور ریاست مخالف عناصر کے فتنے کا مذہب یا معاشرتی اقدار سے کوئی تعلق نہیں ہے۔