سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے ملک میں انتشار اور ملکی سالمیت کے خلاف نفرت پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی کا حکم دے دیا جب کہ فیصلے میں سانحہ 12 مئی میں مجرموں کو سزا نہ دینے کو بھی غلط مثال قرار دیا ہے۔
سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنا کیس کا مختصر فیصلہ سنا دیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیصلہ پڑھ کر سنایا جب کہ فیصلے میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے فرمان بھی پڑھ کر سنائے گئے تاہم تفصیلی فیصلہ سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر جاری کر دیا جائے گا۔
فیصلے کی کاپی سیکرٹری دفاع، ڈی جی آئی ایس آئی، ڈی جی آئی ایس پی آر اور ڈی جی آئی جی کو فراہم کرنے کا حکم دیا گیا۔
سپریم کورٹ کی جانب سے سنایا گیا فیصلہ 45 صفحات پر مشتمل ہے جس میں کہا گیا ہے کہ سیاسی پارٹیوں کو پر امن طور پر احتجاج کرنے کا قانونی حق حاصل ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ حساس ادارے ملکی سالمیت میں نفرت پیدا کرنے والے لوگوں کو مانیٹر کریں اور سیکیورٹی ہاتھ میں لے کر اکسانے والے لوگوں پر بھی نظر رکھی جائے جب کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں بھی ایسے تمام افراد کو مانیٹر کریں جو دہشت گردی، انتہا پسندی اور نفرت آمیز گفتگو کرتے ہیں۔
عدالت نے فیصلہ دیا کہ لوگوں کی جان و مال کو نقصان پہنچانے، بد امنی پر اکسانے اور فتوے دینے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے اور قانون کے مفاد کے لئے ہر ممکن اقدامات کیے جائیں۔
فیصلے میں الیکشن کمیشن کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اُن سیاسی جماعتوں کے خلاف کارروائی کرے جو قانون پر عمل نہیں کرتے جب کہ تمام سیاسی جماعتیں اپنے ذرائع آمدن بتانے کی بھی پابند ہیں۔
سپریم کورٹ نے فیصلے میں سانحہ 12 مئی کا بھی ذکر کرتے ہوئے ریمارکس دیے ہیں کہ سانحہ 12 مئی کے مجرموں کو سزا نہ دے کر غلط مثال قائم کی گئی۔
عدالت نے نفرت انگیز پیغام نشر کرنے والے چینلز کے خلاف بھی پیمرا آرڈیننس کے تحت کارروائی کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ ایسے کیبلز آپریٹرز جنہوں نے نشریات بند کیں ان کے خلاف بھی کارروائی کی جائے۔