لاہور ہائیکورٹ راولپنڈی بینچ نے ارشد خان چائے والا کا قومی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک کیے جانے کے معاملے پر نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) اور امیگریشن ڈیپارٹمنٹ سے رپورٹ طلب کر لی ہے۔
جسٹس جواد حسن کی سربراہی میں عدالت نے کیس کی سماعت کے بعد تحریری حکم جاری کرتے ہوئے متعلقہ حکام کو 17 اپریل کے لیے نوٹس جاری کردیا۔ عدالت نے سرکاری وکیل کو بھی ہدایت کی کہ وہ متعلقہ محکموں سے ہدایات لے کر آئندہ سماعت سے قبل جواب جمع کروادیں۔
سماعت کے دوران درخواست گزار کے وکیل عمر اعجاز گیلانی نے مؤقف اپنایا کہ ارشد خان ایک پاکستانی شہری ہیں اور ایک جعلی خبر کی بنیاد پر متعلقہ حکام نے ان کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک کردیا، جس سے ان کا مستقبل، کیریئر اور کاروبار خطرے میں پڑ گیا ہے۔
سرکاری وکیل نے درخواست کی قابل سماعت ہونے پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ ارشد خان اپنی پاکستانی شہریت سے متعلق کوئی مستند دستاویز عدالت میں پیش نہیں کرسکے، اس لیے نادرا اور امیگریشن حکام نے ان کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ درست طور پر بلاک کیا۔
اس پر وکیل صفائی نے مؤقف اپنایا کہ ارشد خان کے خاندان کی پاکستان میں شہریت کی دستاویزات موجود ہیں، لہٰذا نادرا کی جانب سے 1978 سے قبل کی رہائش کا مطالبہ بدنیتی پر مبنی ہے، جس سے نہ صرف ان کی روزگار کے مواقع بلکہ ان کی شہرت کو بھی ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے۔
وکیل نے مزید کہا کہ آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 9 کے تحت ہر شہری کے روزگار کا بنیادی حق تسلیم کیا گیا ہے، جبکہ آرٹیکل 18 ہر شہری کو کاروبار کا حق دیتا ہے۔ اس کے علاوہ، آرٹیکل 14 انسانی عظمت اور نجی زندگی کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے، اور آرٹیکل 4 کے تحت ہر شہری کو قانون کے مطابق سلوک کا حق حاصل ہے۔
درخواست گزار کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ نادرا کی جانب سے ارشد خان کا شناختی کارڈ بلاک کرنا نادرا آرڈیننس 2000 کے سیکشن 18 کی صریح خلاف ورزی ہے، کیونکہ یہ اقدام بغیر کسی قانونی جواز اور نوٹس کے کیا گیا۔
عدالت نے تمام دلائل سننے کے بعد نادرا اور امیگریشن حکام کو آئندہ سماعت پر تحریری جواب اور ریکارڈ سمیت عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔
واضح رہے کہ جولائی 2017 میں بھی نادرا نے یہ مؤقف اختیار کیا تھا کہ ارشد خان پاکستانی نہیں بلکہ افغان شہری ہیں اور اپنی پاکستانی شہریت کو ثابت کرنے میں وہ ناکام رہے ہیں۔