کراچی میں وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال نے پیر کے روز ایک اہم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ کے تحت قابل تقسیم مالی وسائل کی موجودہ تقسیم پر شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ فارمولا وفاقی حکومت پر غیر معمولی مالی بوجھ ڈال رہا ہے، جس کے باعث اہم قومی ترقیاتی منصوبے فنڈز کی کمی کا شکار ہیں۔
احسن اقبال کا کہنا تھا کہ صوبوں کو چاہیے کہ وہ باہمی مشاورت سے اس معاملے پر اتفاق رائے پیدا کریں تاکہ وفاق پر پڑنے والا مالی دباؤ کم ہو سکے اور قومی سطح کے بڑے منصوبے بروقت مکمل ہو سکیں۔
کراچی پریس کلب میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کا ایک بڑا حصہ ترقیاتی فنڈز کا صوبوں کو منتقل ہو جاتا ہے، جس کے بعد وفاق کے پاس ایسے بڑے منصوبوں میں سرمایہ کاری کے لیے خاطر خواہ وسائل نہیں بچتے جو ملک کی واٹر سیکیورٹی اور فوڈ سیکیورٹی کے لیے ناگزیر ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ وفاقی حکومت اس وقت صوبوں کی طرف سے درپیش اخراجات کی مد میں تقریباً 716 ارب روپے برداشت کر رہی ہے، جو ملک کی مجموعی مالی گنجائش کو شدید متاثر کرتا ہے۔ اس صورتحال میں دیامر بھاشا ڈیم اور مہمند ڈیم جیسے منصوبے بروقت مکمل نہیں ہو پا رہے۔
انہوں نے صوبوں سے مطالبہ کیا کہ وہ اس فارمولے پر نظرِثانی کریں تاکہ وفاق کو مالی گنجائش حاصل ہو اور وہ ان اہم منصوبوں کو بروقت پایۂ تکمیل تک پہنچا سکے۔
احسن اقبال نے کہا کہ موجودہ حکومت نے “اُڑان پاکستان” منصوبے کے تحت 2035 تک پاکستان کو ایک ہزار ارب ڈالر کی معیشت بنانے کا ہدف رکھا ہے، جس کا آغاز 31 دسمبر 2023 کو کیا گیا۔
انہوں نے سابق حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف کی پالیسیوں نے ملکی معیشت کو اس حد تک نقصان پہنچایا کہ ہمیں دوبارہ آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا۔ تاہم اب موجودہ حکومت آئی ایم ایف پروگرام پر سختی سے عمل کر رہی ہے تاکہ معاشی استحکام حاصل کیا جا سکے۔
وزیر منصوبہ بندی نے معاشی اشاریوں میں بہتری کی نشاندہی کرتے ہوئے بتایا کہ مہنگائی کی شرح 24 فیصد تک کم ہو گئی ہے، شرح سود 23 فیصد سے گھٹ کر 11 فیصد پر آ چکی ہے، ترسیلات زر 39 ارب ڈالر کی ریکارڈ سطح پر پہنچ چکی ہیں جبکہ اسٹاک مارکیٹ نے 130,000 پوائنٹس کی حد عبور کر لی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان تمام اشاریوں سے واضح ہے کہ پاکستان کی معیشت اب تیزی سے ترقی کی راہ پر گامزن ہو چکی ہے، اور حکومت سیاسی استحکام، پالیسیوں میں تسلسل اور ادارہ جاتی اصلاحات کے ذریعے اس بہتری کو برقرار رکھنے کے لیے پرعزم ہے۔
احسن اقبال نے کہا کہ آپریشن “بنیان المرصوص” جیسے کامیاب فوجی آپریشنز کے بعد پاکستان کی عالمی سطح پر ساکھ میں نمایاں بہتری آئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں پی ٹی آئی کے دور میں حتیٰ کہ قریبی دوست ممالک بھی دور ہو گئے تھے، مگر وزیرِاعظم شہباز شریف کی قیادت میں بین الاقوامی اتحاد دوبارہ مضبوط ہو چکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سی پیک 2.0 کے تحت چین سے تعلقات میں مزید بہتری آئی ہے اور مؤثر سفارتکاری کے ذریعے مسئلہ کشمیر ایک بار پھر عالمی ایجنڈے کا حصہ بن چکا ہے۔
احسن اقبال نے ترقیاتی بجٹ میں بلوچستان کو ترجیح دینے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ N-25 ہائی وے (چمن-کوئٹہ-کراچی) کو پاکستان ایکسپریس وے کا نام دیا گیا ہے اور اس کے لیے رقم مختص کی گئی ہے۔
انہوں نے دیگر اہم منصوبوں کی تفصیلات بھی فراہم کیں، جن میں سکھر-حیدرآباد موٹروے کی فنڈنگ مکمل ہونا، پشاور تا کراچی موٹروے پر جاری کام، کراچی کے K-IV منصوبے کے لیے 8 ارب روپے کی فراہمی اور گرین لائن بس سروس کی توسیع شامل ہے، جس کا سنگ بنیاد وزیر اعظم جلد رکھیں گے۔
شوبز انڈسٹری پر گفتگو:
اس موقع پر وزیر منصوبہ بندی نے شوبز انڈسٹری کے ہدایت کاروں اور پروڈیوسرز سے بھی ملاقات کی اور پاکستان کی ثقافتی مصنوعات کو عالمی مارکیٹ تک پہنچانے پر تبادلہ خیال کیا۔
ندیم بیگ، ستیش آنند اور حنا خواجہ بیات سمیت دیگر معروف شخصیات پر مشتمل وفد سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان کا میوزک، آرٹ اور ڈرامہ عالمی سطح پر پیش کیے جانے کے قابل ہیں۔
انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی فلم انڈسٹری جو کبھی لاہور اور کراچی کا فخر تھی، آج اس حال میں ہے کہ پورے سال میں بمشکل تین یا چار فلمیں ریلیز ہوتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی فلمیں اور ڈرامے نیٹ فلکس یا ایمیزون جیسے عالمی پلیٹ فارمز پر موجود نہیں ہیں، اور اس حوالے سے ہدایت کاروں اور پروڈیوسرز کو آگے بڑھ کر کردار ادا کرنا ہوگا۔