سپریم کورٹ میں 27ویں آئینی ترمیم کے بعد پیدا ہونے والی عدالتی اور انتظامی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے بلائے گئے اہم فل کورٹ اجلاس میں ججوں نے اس ترمیم کے اثرات، عدلیہ کے ادارہ جاتی ردِعمل اور مستقبل کے لائحہ عمل پر تفصیلی گفتگو کی۔ تاہم، اجلاس کے دوران پیش کی گئی اجتماعی استعفے کی تجویز پر کسی قسم کا اتفاق رائے سامنے نہ آ سکا، اور ججوں نے اس حوالے سے خاموشی اختیار کی۔
رپورٹ کے مطابق آئینی ترمیم کے نتیجے میں سپریم کورٹ کے اختیارات میں نمایاں کمی ہو گئی تھی، اور اسی کے اگلے روز ایک درجن سے زیادہ جج چیف جسٹس کے چیمبر میں جمع ہوئے تاکہ اس بات کا فیصلہ کیا جا سکے کہ عدالت کو اس صورتِ حال میں کیا مؤقف اختیار کرنا چاہیے۔ اس دوران جب ایک جج نے ترمیم کے خلاف بطور احتجاج اجتماعی استعفے کی تجویز پیش کی تو اجلاس میں موجود جج اس تجویز سے اتفاق کرتے دکھائی نہ دیے اور ماحول کچھ دیر کے لیے مزید سنجیدہ ہو گیا۔
فل کورٹ اجلاس 14 نومبر کو چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں منعقد ہوا، اس وقت چار ججوں کو وفاقی آئینی عدالت کے لیے منتخب کرنے کی تیاریاں جاری تھیں۔ یہ اجلاس دو ججوں—جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ—کے استعفے کے صرف ایک روز بعد بلایا گیا تھا۔ ان دو ججوں کے علاوہ جسٹس صلاح الدین پنہور نے بھی چیف جسٹس کو خط لکھ کر آئینی ترمیم پر بحث کے لیے فل کورٹ اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا تھا، تاکہ عدلیہ اپنا آئینی کردار پوری وضاحت کے ساتھ ادا کر سکے۔
ذرائع کے مطابق اجلاس کے دوران چیف جسٹس کے چیمبر کا ماحول خاصا تناؤ کا شکار تھا اور سینئر جج اس صورت حال کو عدلیہ کے لیے ایک افسوسناک مرحلہ قرار دے رہے تھے۔ ماحول اس وقت مزید سنگین ہوگیا جب ایک جج نے سوال اٹھایا کہ کیا سپریم کورٹ کے پاس یہ آئینی اختیار موجود ہے کہ وہ پارلیمنٹ کو قانون سازی یا آئینی ترمیم سے روک سکے؟
ترمیم کے اثرات پر گفتگو کرتے ہوئے چیف جسٹس نے اس بات پر افسوس ظاہر کیا کہ ججوں نے براہِ راست بات کرنے کے بجائے خط لکھنے کو ترجیح دی، حالانکہ ان کے دروازے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں اور وہ چاہیں تو کسی بھی معاملے پر مل کر گفتگو کی جا سکتی تھی۔
اجلاس میں کم از کم 13 جج شریک تھے، جبکہ دو جج—جسٹس منیب اختر اور جسٹس عائشہ اے ملک—اجلاس میں شریک نہ ہو سکے، اور جسٹس مسرت ہلالی بیماری کے باعث حاضر نہ ہوئیں۔ اس دوران چار جج—امین الدین خان، حسن اظہر رضوی، عامر فاروق اور علی باقر نجفی—کو پہلے ہی وفاقی آئینی عدالت کے لیے منتخب کیا جا چکا تھا۔
اجلاس میں ججوں نے اپنے دو ساتھیوں کے استعفوں پر افسوس کا اظہار کیا اور اس بات پر زور دیا کہ عدلیہ کو اس صورتحال میں ایک مضبوط ادارہ جاتی ردِعمل سامنے لانا چاہیے۔ جب کچھ ججوں نے حکومت کو باضابطہ طور پر خط لکھنے کی تجویز پیش کی تو چیف جسٹس نے یاد دلایا کہ ججوں کو پہلے براہِ راست بات چیت کرنی چاہیے تھی بجائے اس کے کہ فوری خطوط لکھے جائیں۔
ذرائع کے مطابق چیف جسٹس نے وضاحت کی کہ سپریم کورٹ کے پاس عدالتی نظرِ ثانی کا اختیار ضرور ہے، لیکن یہ اختیار قانون بننے کے بعد ہی استعمال کیا جاتا ہے، پہلے نہیں، لہٰذا عدالت پارلیمنٹ کو قانون سازی سے روکنے کی مجاز نہیں۔ جب ایک مؤثر ادارہ جاتی ردِعمل کی تجویز پر اصرار جاری رہا تو ایک جج نے مشورہ دیا کہ اگر واقعی عدلیہ آئینی حدود سے ہٹ کر احتجاج ریکارڈ کرانا چاہتی ہے تو پھر اجتماعی استعفیٰ ہی واحد راستہ رہ جاتا ہے—تاہم اس تجویز پر اجلاس میں مکمل خاموشی چھا گئی، جس سے ظاہر ہوا کہ اکثریت اس سے متفق نہیں تھی۔ نتیجتاً اجلاس بغیر کسی مشترکہ فیصلے کے ختم ہوگیا۔