دفتر خارجہ نے پلوامہ حملے کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ پر اسلام آباد میں غیر ملکی سفارت کاروں کو بریفنگ میں کہا ہے کہ پلوامہ حملے کی تحقیقات کو منطقی انجام تک پہنچانا چاہتے ہیں۔
پاکستان نے پلوامہ واقعہ سے متعلق بھارتی ڈوزئیر کا ابتدائی جواب دے دیا ہے جس کے بعد آج اسلام آباد میں غیر ملکی سفارتکاروں کو بریفنگ دی گئی جس میں بتایا گیا کہ 14 فروری کو مقبوضہ کشمیر کے علاقے پلوامہ میں خودکش حملہ ہوا اور 27 فروری کو بھارت نے حملے کے حوالے سے شواہد اور دستاویزات پاکستان کو دیں۔
پاکستان نے فی الفور تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی جس نے کئی افراد کو حراست میں لیا، تکنیکی معاملات کو دیکھا اور سوشل میڈیا پر معلومات کا بھی جائزہ لیا، بھارتی دستاویز 91 صفحات پر مشتمل تھیں جس کے چھ حصے تھے، جس میں سے حصہ 2 اور 3 پلوامہ حملے سے متعلق تھے اور باقی حصے عام الزامات تھے.
پاکستان نے پلوامہ حملے سے متعلق معلومات پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے 54 افراد کو حراست میں لے کر تحقیقات کیں، لیکن کسی بھی شخص کا پلوامہ حملے سے تعلق ثابت نہیں ہوا، تحقیقات کے دوران معاملے کے تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھا، واٹس ایپ نمبر، ٹیلیگرام نمبر، ویڈیو میسجز، فون لوکیشن اور کالعدم تنظیموں کے کیمپس کی تحقیقات کی گئیں، فراہم کردہ تمام متعلقہ نمبرپرسروس فراہم کرنے والی کمپنیوں سے تفصیلات طلب کی گئیں اور واٹس ایپ میسج کے حوالے سے امریکی حکومت سے رابطہ کیا گیا۔
خودکش حملہ آور عادل ڈار کے اعترافی ویڈیو بیان کا بھی جائزہ لیا گیا، بھارت نے جن 22 مقامات کی نشان دہی کی تھی ان کا بھی معائنہ کیا گیا لیکن ان 22 مقامات پر کسی کیمپ کا کوئی وجود نہیں، اگر کوئی درخواست کرے تو پاکستان ان مقامات کا دورہ بھی کروا سکتا ہے، مزید تحقیقات کے لئے بھارت سے مزید معلومات اوردستاویزات ضروری ہیں۔
دفتر خارجہ نے کہا کہ پاکستان پلوامہ حملے سے متعلق بھارتی الزامات کو منطقی انجام تک پہنچانا چاہتا ہے۔ بریفنگ میں اٹارنی جنرل ،سیکرٹری خارجہ ،سیکرٹری داخلہ ،ڈی جی ایف آئی اے بھی موجود تھے۔