چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے آصف علی زرداری کی نااہلی کے لیے دائر درخواست کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے ہیں کہ عدالتوں کو ایسے مقدمات میں ملوث نہ کیا جائے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی نااہلی کے لیے تحریک انصاف کے رہنماؤں عثمان ڈار اور خرم شیر زمان کی جانب سے دائر درخواست کی سماعت کی۔
درخواست گزاروں کی جانب سے موقف اپنایا گیا ہے کہ آصف علی زرداری نے الیکشن کمیشن میں جمع کرائے گئے کاغذات نامزدگی میں اپنے اثاثے چھپائے ہیں، اثاثے چھپانے کی وجہ سے آصف زرداری صادق اور امین نہیں رہے، اس لئے قانون کے تحت آصف زرداری نا تو قومی اسمبلی کے رکن بننے اور نا ہی پارٹی کی سربراہی کے لئے اہل ہیں۔ اس لئے عدالت سے استدعا ہے کہ آصف زرداری کو آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہل قرار دیا جائے۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیئے کہ عدالتوں کو ایسے مقدمات میں ملوث نہ کیا جائے، امریکی جج کی کتاب میں عدالتوں کو سیاسی مقدمات سے دوررہنے کی بات کی گئی ، آپ کے پاس ایف بی آر سمیت دیگر فورمز موجود ہیں، پہلے ہی 18 ہزار مقدمات زیرالتواء ہیں ایسے مقدمات سے عام عوام متاثر ہوگی، جو وقت آپ ادھر لیں گے وہ عوام کے لئے چھوڑ دیں۔ کیا آپ کی جماعت سے آصف علی زرداری کے مقابل امیدوار نے رجوع کیا، کیا الیکشن کمیشن میں اسی طرح کی درخواست دائر کی گئی؟۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ پارلیمنٹ کو خود اپنے لئے احتسابی طریقہ کاربنانا چاہیے، پارلیمنٹ اس مقصد کے لئے خصوصی کمیٹی بھی بناسکتی ہے،درخواست گزار کی جماعت ابھی اقتدارمیں ہے وہ خود اس مسئلہ کو دیکھ سکتے ہیں، پارلیمنٹ اور اسٹینڈنگ کمیٹی کی فائنڈنگز کے بعد کورٹ میں آئیں۔ پاناما کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کو پڑھیں، عدالت عظمی نے تمام فورمز کے بعد کیس سنا، کیا آپ نے دیگر فورمز کواستعمال کیا؟، پانامہ فیصلے میں سپریم کورٹ نے جو طریقہ طے کیا اس کے مطابق مطمئن کریں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے آصف زرداری کو نوٹس جاری کر کے جواب طلب کرلیا، کسی کی مزید سماعت 2 ہفتوں بعد ہوگی۔