صدر ٹرمپ کے تعصبانہ اور نسل پرست تبصروں اور پالیسیوں کو بنیاد بناتے ہوئے ’دی ہنٹ‘ یعنی شکار نامی فلم ریلیز ہو رہی ہے۔
یہ فلم ایسے امریکی معاشرے کی عکاسی کرتی ہے جس میں اشرافیہ عام امریکی کو کھیل سمجھتے ہوئے ان کا شکار کرتی ہے۔فلم گزشتہ سال ستمبر میں ریلیز ہونی تھی لیکن برسر اقتدار ریپبلکن جماعت کی فلم پر تنقید کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہو گئی۔
ریپبلکن جماعت نے فلم کو ’نسل پرست‘ قرار دیا ہے۔صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹویٹ میں تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ فلم بدنظمی پھیلانے کے لیے بنائی گئی ہے۔
’ہالی وڈ خود ہی فساد پیدا کرتا ہے اور پھر دوسروں کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔ (حقیقت میں) اصل نسل پرست یہ خود ہیں، اور ہمارے ملک کے لیے مضر ہیں۔فلم ’دی ہنٹ‘ کی کہانی امریکہ میں فائرنگ کے واقعات پر مبنی ہے
بالخصوص ان ریاستوں میں جہاں ریپبلکن پارٹی کے حامیوں کی اکثریت ہے۔فلم میں ایسے کئی دولت مند کردار دکھائے گئے ہیں جو اپنے شکار کو قابل مذمت اور شرمناک قرار دیتے ہیں۔
یہی الفاظ سابق سیکرٹری خارجہ اور صدارتی امیدوار ہیلری کلنٹن نے سال 2016 کی انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ کے حامیوں کے لیے استعمال کیے تھے۔یونیورسل پکچرز نے فلم ریلیز کی تاریخ 13 فروری رکھی ہے۔
یونیورسل کے مطابق فلم ریلیز کرنے کا صحیح وقت یہی ہے۔یونیورسل پکچرز نے یہ فیصلہ اوہائیو، ٹیکساس اور کیلوفورنیا میں ہونے والے حالیہ فائرنگ کے واقعات کے بعد کیا ہے۔
امریکی نارتھ ایسٹرن یونیورسٹی کے اعداد و شمار کے مطابق سال 2019 میں عوامی مقامات پر فائرنگ سے سب سے زیادہ ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ یونیورسٹی کے مطابق 41 فائرنگ کے واقعات میں 211 عام لوگ ہلاک ہوئے۔ ریاست کیلی فورنیا میں سب سے زیادہ فائرنگ کے واقعات ہوئے ہیں
جن میں ایک شخص نے لوگوں پر گولیاں برسا کر کئی افراد کو ہلاک کیا۔فلم کے پروڈیوسر جیسن بلم نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ فلم بناتے ہوئے کسی کی بھی حمایت نہیں کی گئی۔دیکھنے والے بخوبی سمجھتے ہیں کہ یہ طنزیہ فلم ہے۔