وفاقی حکومت نے عزیر بلوچ کیس کے حوالے سے عدالت میں جواب جمع کرا دیا ہے۔
وفاقی حکومت کے مطابق عزیر بلوچ کا ملٹری کورٹ میں کیس چل رہا اور ملٹری کورٹ کا قانون بننے کے بعد ہائی کورٹ کوئی حکم نامہ جاری نہیں کر سکتی۔
وکیل شوکت نے عدالت سے سوال کیا کہ مجھے بتایا جائے میرے موکل کا بیٹا عزیر بلوچ زندہ ہے یا نہیں؟
ان کے سوال پر جسٹس آفتاب گورڑ نے جواب دیا کہ آپ اطمنان رکھیں, عزیر بلوچ حیات ہیں.
ایڈووکیٹ شوکت حیات نے عدالت سے مطالبہ کیا کہ انسانی بنیادوں پر عزیر بلوچ کی ان کی ماں اور خاندان سے ملاقات کرائی جائے جس کے بعد عدالت نے وفاقی حکومت سے عزیر بلوچ اور ان کے خاندان کی ملاقات کے حوالے سے جواب طلب کر لیا ہے۔
عدالت کی جانب سے سماعت گیارہ فروری تک ملتوی کردی گئی ہے۔
واضح رہے کہ عزیر بلوچ کو گیارہ ایپرل کو ملٹری تحویل میں دے دیا گیا تھا۔ ان کی والدہ نے ہائی کورٹ میں درخواست دائر کر رکھی ہے کہ ان کے بیٹے کو 12 اپریل 2017 سے ٹرائل کورٹ میں پیش نہیں کیا گیا ہے۔
اس سے قبل جیل حکام کا کہنا تھا کہ عزیر بلوچ 11 اپریل 2017 سے فوجی حکام کے پاس ہے۔ آئی جی جیل خانہ جات کی رپورٹ کے مطابق جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں ملزم عزیر بلوچ کو میجر محمد فنین کے حوالے کیا گیا تھا۔