اسلام آباد ہائی کورٹ نے جمعیت علمائے اسلام (ف) کی ذیلی تنظیم انصارالاسلام پر پابندی سے متعلق درخواست پر وزارت داخلہ سے کل جواب طلب کرلیاہے۔
تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے جمعیت علمائے اسلام (ف) کی ذیلی تنظیم انصارالاسلام پر پابندی سے متعلق درخواست پر سماعت کی۔
دوران سماعت درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ جمعیت علمائے اسلام سیاسی جماعت کے طور پر الیکش کمیشن کے پاس رجسٹرڈ ہے، انصار الاسلام پرائیویٹ ملیشیا نہیں، ہماری پارٹی کا حصہ ہے۔
اس موقع پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے درخواست گزار کے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا وفاقی حکومت نے آپ کو سنا بھی نہیں ہے، جس پر درخواست گزار کے وکیل نے جواب دیا کہ وزارت داخلہ نے ہمیں سنے بغیر پابندی لگائی ہے،درخواست گزار کے وکیل نے موقف اپنایا کہ یہ قائداعظم کے دور سے یہ تنظیم کام کر رہی ہے۔
درخواست گزار کے وکیل کا جواب سننے کے بعد چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ جب تنظیم کا باقاعدہ وجود ہی نہیں تو اس پر پابندی کیسے لگ سکتی ہے، خاکی وردی کی بجائے سفید پہن لیں تو اس پھر کیا ہو گا، یہ بڑی عجیب بات ہے کہ ایک چیز موجود ہی نہیں اور اس پر پابندی لگا دی گئی۔
بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کرتے ہوئے حکم دیا کہ وزارت داخلہ عدالت کو مطمئن کرے کہ کسی کو سنے بغیر کیسے پابندی کیسے لگائی جاسکتی ہے