سپریم کورٹ میں ملٹری کورٹس میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر سماعت عدالت کا نو رکنی لارجر بینچ کر رہا ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دوران سماعت کہا کہ اٹارنی جنرل آپ روسٹرم پر آئیں کچھ کہنا چاہتا ہوں،عدالتوں کو سماعت کا دائرہ اختیار آئین کی شق 175 دیتا ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ صرف اور صرف آئین عدالت کو دائرہ سماعت کا اختیار دیتا ہے،ہر جج نے حلف اٹھایا ہے کہ وہ آئین اور قانون کے تحت سماعت کرے گا۔
اس موقع پرسردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ میں یہاں خوشی کا اظہار کرنا چاہتاہوں،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس پر کہا کہ آپ سیاسی بیان باہر جاکردیں۔
واضح کرنا چاہتا ہوں کل مجھے تعجب ہوا کہ رات کو کاز لسٹ میں نام آیا،ان کا کہنا تھا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کو قانون بننے سے پہلے 8 رکنی بینچ نے روک دیا تھا،اس قانون کا کیوں کہ فیصلہ نہیں ہوا اس پر رائے نہیں دوں گا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اس سے پہلے ایک 3 رکنی بینچ جس کی صدارت میں 5 مارچ کو کررہا تھا،5مارچ والے فیصلے 31 مارچ کو ایک سرکولرکے ذریعے ختم کردیے جاتے ہیں،ایک عدالتی فیصلے کو رجسٹرار کی جانب سے نظر انداز کیا گیا،یہ عدالت کے ایک فیصلے کی وقعت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پھر اس سرکولر کی تصدیق کی جاتی ہے پھراسے واپس لیا جاتا ہے،غلطی ہوتی ہے ہم انسان ہیں، مجھ سے بھی غلطی ہوسکتی ہے،اس پر 8 اپریل کو میں نے نوٹ لکھا جو ویب سائیٹ پر لگا پھر ہٹا دیا گیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ میں اس بینچ کو نہیں مانتا،لیکن سماعت سے معذرت نہیں کررہا،اس موقع پر جسٹس طارق مسعود نے کہاکہ میں قاضی فائز عیسی ٰکے ساتھ اتفاق کرتا ہوں۔