لاہور ہائی کورٹ نے پی ٹی آٸی کی کارکن خدیجہ شاہ کی جناح ہاؤس اور عسکری ٹاور حملوں کے مقدمات میں ضمانت کی درخواستوں پر کارروائی مکمل پرنے پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔
ہائی کورٹ کی جسٹس عالیہ نیلم اور جسٹس اسجد جاوید گھرال پر مشتمل دو رکنی بنچ نے خدیجہ شاہ سمیت نو ملزمان کی ضمانت کی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کر لیا جبکہ دو ملزموں روہینہ اور قاسم کی ضمانت منظور کرلی۔
سماعت کے دوران دو رکنی بینچ نے ریمارکس دیے کہ احتجاج کرنا سوسائٹی کا کلچر ہے، اتنی باریک بینی میں نہ جائیں کہ کل آپ کو مشکل ہو۔ بینچ نے ریمارکس دیے کہ ایک لیڈر کال دے تو لوگ احتجاج کیلیے نکلتے ہیں، احتجاج کرنے سے تو کسی کو روک نہیں سکتے۔
عدالت کے استفسار پر اسپشل پراسیکیوٹر فرہاد شاہ نے بتایا کہ خدیجہ شاہ ایف آئی آر میں نامزد نہیں ہیں، ان پر ریاست کے خلاف نعرے لگانے کا الزام ہے۔
اسپیشل پراسیکیوٹر نے یہ بھی بتایا کہ شناخت پریڈ کے بعد ان کا بیان ریکارڈ کیا گیا اور یہ موقع پر لوگوں حکومت کے خلاف اکساتی رہیں، خدیجہ شاہ اپنے اکائونٹ سے تصاویر بھی اپ لوڈ کیں۔
عدالت نے استفسار کیا کہ خدیجہ شاہ کے بیان میں غیر قانونی کیا ہے، یہ کہنا کہ ماؤں بہنوں کی عزت محفوظ نہیں کیا غیر قانونی ہے۔
عدالتی استفسار پر سرکاری وکیل نے بتایا کہ خدیجہ شاہ خود اپنے اکاونٹ کی تصدیق کی۔ عدالت نے قرار دیا کہ پولیس فائل کو دیکھیں کیا اس میں سب کچھ درست ہے، جو حالات ہیں آگے پورے پنجاب کا کیا ہوگا، جگہ جگہ کیمرے لگے ہیں کیسے کوئی چیز چھپی رہ گئی۔
خدیجہ شاہ کے وکیل سمیر کھوسہ نے بتایا کہ اُن کی موکلہ نے خود گرفتار دی۔ دو رکنی بنچ نے سرکاری وکیل کو باور کروایا کہ بیان میں تضاد ہے، ایک طرف کہ رہے ہیں شوشل میڈیا رپورٹس سے علم ہوا، ایس ایچ او کے بیان اور ہنگامہ آرائی کے وقت میں تضاد ہے۔
جسٹس عالیہ نیلم نے ریمارکس دیے کہ ایس ایچ او کے بیان پر یقین نہیں کر سکتے، ایف ائی ار میں ہنگامہ ارائی کرنے والوں کی تعداد کا ذکر نہیں۔ دالت نے متعلقہ ریکارڈ پیش نہ کرنے پر برہمی کا اظہار بھی کیا۔