اقتصادی امور کی وزارت کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق، مالی سال 2026 کے پہلے چار مہینوں کے دوران پاکستان کو غیر ملکی قرضوں اور مالیاتی امداد کی صورت میں جو مجموعی آمدنی حاصل ہوئی ہے، وہ گزشتہ برس کی اسی مدت کے مقابلے میں تینتیس فیصد کے قابل ذکر اضافے کی نشاندہی کرتی ہے، جس کی سب سے بڑی محرک عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب سے ملنے والی مالی معاونت کو قرار دیا جا رہا ہے جو ملکی معیشت کے لیے ایک اہم سنگ میل ثابت ہو رہی ہے۔
حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے اس تعاون کے مثبت اثرات کے پیش نظر، موجودہ مالی سال کا آغاز انتہائی مستحکم اور پر امید انداز میں ہوا ہے، جو کہ گزشتہ برس کے اس دورانیے سے یکسر مختلف ہے جب آئی ایم ایف کے تعاون میں رکاوٹوں کے باعث ابتدائی کارکردگی مطلوبہ معیار پر پورا نہ اتر سکی تھی اور ملک معاشی دباؤ کا شکار تھا۔
اعداد و شمار کے گہرے تجزیے سے معلوم ہوتا ہے کہ غیر ملکی قرضوں کی آمدنی میں انتالیس فیصد کا زبردست عروج دیکھنے میں آیا ہے، جو ایک ارب بیاسی کروڑ بیس لاکھ ڈالر تک پہنچ گئی ہے، جو کہ ملکی خزانے کے لیے انتہائی خوش آئند خبر ہے۔ تاہم، ایک پریشان کن امر یہ سامنے آیا ہے کہ اسی دوران غیر واپس شدہ گرانٹس میں تہتر فیصد کی زبردست کمی واقع ہوئی ہے، جو محض پانچ کروڑ چھپن لاکھ ڈالر پر مرتکز رہ گئی ہیں، جو بین الاقوامی برادری کی جانب سے بلا معاوضہ امداد میں کمی کا اشارہ دیتی ہیں۔
حکومت پاکستان نے مالی سال 2026 کے لیے غیر ملکی آمدنی کا ہدف انیس ارب نوے کروڑ ڈالر مقرر کیا ہے، جو پچھلے سال کے ہدف سے زیادہ ہے اور یہ ملکی معیشت کے بڑھتے ہوئے تقاضوں کے عکاس ہیں۔ اس ہدف کے حصول کی راہ میں کثیرالجہتی اداروں سے ایک ارب بیس کروڑ ڈالر کی آمدنی اور بیرون ملک مقیم غیر ملکی پاکستانیوں کی جانب سے نیا پاکستان سرٹیفیکیٹس کے ذریعے تہتر کروڑ پچاس لاکھ ڈالر کی آمدنی نے ابتدائی کامیابی کی امیدیں روشن کر دی ہیں۔
اس کے علاوہ، سعودی آئل سہولت کے تحت چالیس کروڑ ڈالر کی ماہانہ ادائیگیاں اور دوطرفہ قرض دہندگان سے تہتر فیصد اضافے کے ساتھ چوالیس کروڑ نوے لاکھ ڈالر کی وصولی نے بھی ملکی خزانے کو تقویت پہنچائی ہے، جو اقتصادی استحکام کے حوالے سے ایک مثبت قدم ہے۔ ان تمام تر مثبت پیش رفتوں کے باوجود، ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ مقررہ سالانہ ہدف کے حصول کے لیے ابھی تک کی کارکردگی پر مسلسل نظر رکھنا اور مزید کوششیں کرنا وقت کی اہم ضرورت بنی ہوئی ہے، خاص طور پر اس صورت میں جب بین الاقوامی گرانٹس میں کمی جیسی صورتحال کا سامنا ہے۔
یہ واضح رہے کہ موجودہ مالی سال کے انیس ارب نوے کروڑ ڈالر کے مکمل سالانہ ہدف میں چھ ارب چالیس کروڑ ڈالر کثیرطرفہ اور دوطرفہ قرض دہندگان سے شامل ہیں، جس میں پانچ ارب پانچ کروڑ ڈالر کثیرطرفہ اداروں سے اور ایک اھ چھتیس کروڑ ڈالر دوطرفہ قرض دہندگان سے ہیں، جبکہ ساتھ ہی سعودی عرب کے ٹائم ڈپازٹ اور چین کے سیف ڈپازٹ جیسے ذرائع بھی اس ہدف کے حصول میں اہم کردار ادا کریں گے۔